تہران ٹائمز میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں، موقع پر نظر رکھنے والی پالیسی پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہيں جو قومی مفادات، اقتصادی ترقی اور امن و سلامتی کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو، خطے کے تمام ممالک سے تعلقات میں "توازن" پیدا کر سکے اور اس مقصد کی راہ میں کشیدگی میں کمی کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہيں اور سچائی کا سچائی سے جواب دیں گے۔
مضمون کے شروع میں لکھا ہے: علاقے میں جنگ و بد امنی کے درمیان، ایک شفاف انتخابات کا انعقاد کرکے ایران اپنے سیاسی نظام کی پائیداری کو ثابت کیا ہے اور کچھ حکومتوں کے " ایرانی امور کے ماہرین" کے دعوؤں کو غلط ثابت کر دیا۔ سیاسی پائيداری اور قابل فخر انتخاباتی روش، سخت حالات میں بھی جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے لئے رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی تدبیر اور عوام میں احساس ذمہ داری کا ثبوت ہے ۔
ایک اور حصے میں ڈاکٹر پزشکیان نے لکھا ہے: میری حکومت میں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا ترجیحات میں شامل ہے ۔ ہم ایک "مضبوط خطہ" کی تشکیل کی کوشش کریں گے، ایسے حالات قبول نہيں جن میں ایک ملک اکیلا دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ ہمسایہ اور برادر ممالک کو اپنے قیمتی وسائل کوتھکا دینے والی دشمنی ، ہتھیاروں کی دوڑ اور ایک دوسرے کی غیر ضروری حد بندی میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے ہمارا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہونا چاہیے جس میں ہر ایک کے وسائل خطے کی ترقی اور سب کے مفادات کے تحفظ کے لئے وقف ہوں۔
پزشکیان نے اپنی حکومت کا پہلا قدم، غزہ میں نسل کشی سے مقابلہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے :
پہلے قدم کے طور پر، میری حکومت ہمسایہ عرب ممالک سے تعاون کی درخواست کرے گی تاکہ جنگ بندی کو ترجیح دینے اور غزہ کے لوگوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے تمام سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کریں جس سے جنگ کے دائرے میں توسیع کو روکا جا سکے اس ساتھ ہی ہمیں طویل مدت سے جاری غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے جس نے فلسطینیوں کی چار نسلوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔
اس سلسلے میں، میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ حکومتیں "1948 کے نسل کشی کنونشن" کی بنیاد پر نسل کشی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی پابند ہیں نہ کہ مجرموں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر انہيں نسل کشی کا انعام دینے کی!
انہوں نے مزید لکھا:
آج ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کے بہت سے نوجوانوں نے اسرائیلی حکومت کے خلاف ہمارے دیرینہ موقف کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔ میں یہاں اس بہادر نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین پر اصولی موقف کی وجہ سے ایران کے خلاف یہود دشمنی کے الزامات نہ صرف بالکل غلط ہیں بلکہ یہ ہماری ثقافت، عقائد اور بنیادی اقدار کی بھی توہین ہے۔ یقین جانیں کہ یہ الزامات اتنے ہی بے بنیاد ہیں جتنے فلسطینیوں کے جینے کے حق کے دفاع کے لیے یونیورسٹیوں میں احتجاج کے وقت آپ پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہيں ۔
چین اور روس ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارے دوست اور حمایتی رہے ہیں۔ ہم اس دوستی کی بہت قدر کرتے ہیں۔
ایران کے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور میری حکومت تمام شعبوں میں ترقی، بات چیت اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ان تعلقات کو برقرار رکھنے اور اس میں مزيد توسیع کے لئے اقدامات کرے گی۔