بین الاقوامی قوانین کی سیاسی درجہ بندی کے عنوان سے اپنے ایک مختصر مضمون میں حکومت ایران کے ترجمان علی بہادری جہرمی کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کی ضمانت بہت کمزور ہے۔
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ اور مغرب نے بین الاقوامی قوانین کو درجہ بندی کے ساتھ قبول کیا ہے اور خالصتاً سیاسی وجوہات سے اسے کمزور کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
حکومت ایران کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 12 امریکی سینیٹروں کی جانب سے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اسکے ججوں کو لکھا جانے والا خط اس کی واضح مثال سے جن میں انہیں اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کی بابت دھمکیاں دی گئی ہیں۔
چند روز قبل 12 امریکی سینیٹروں کے دستخطوں سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے نام ایک خط میڈیا میں شائع ہوا تھا جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف ممکنہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تو مذکورہ عدالت کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے خلاف سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
اس طرح کے خط کے مواد کے قانونی جائزے سے قطع نظر، اس سے اخذ کردہ دو نکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ایک یہ کہ امریکہ اور مغرب نے بین الاقوامی قانون کو درجہ بندی کے ساتھ قبول کیا ہے اور خالص سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اسے کمزور کرنے سے گریزاں نہیں ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی نظام قانون پر عملدرآمد کو موثر اور کامیاب بنانے کے لیے اس کے ڈھانچے اور مواد دونوں پر ٹھوس نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
مغربی ممالک کے من مانی رویوں نے بین الاقوامی قانون کی پختگی اور اس کے نفاذ کے عمل کو سست کر دیا ہے۔
حکومت ایران کے ترجمان نے کہا کہ غزہ کی صورتحال انسانی حقوق اور حتی کہ انسان دوستانہ قوانین کے بارے میں امریکہ اور مغرب کے سیاسی اور متعصبانہ نقطہ نظر کی واضح مثال ہے جہاں صیہونی حکومت فلسطینیوں کی وحشیانہ نسل کشی، شہریوں پر حملے، طبی اور تعلیمی سہولیات، عالمی اداروں اور تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر، میڈیا کے دفاتر کو نشانہ اور سب سے بڑھ کر بچوں اور عورتوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہی ہے۔
علی بہادری جہرمی نے مزید لکھا کہ 7 ماہ سے زائد عرصے سے جاری ان واقعات نے ایسے سانحات کو روکنے میں بین الاقوامی نظام قانون کی عملی کمزوری کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے اور اس صورتحال نے انسانی حقوق کے بارے میں بعض مغربی ممالک کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے