جوزپ بورل نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کرکے اس غم ناک سانحے کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ تمام پہلوؤں اور ذمہ داروں کے بارے میں حقائق سامنے آئيں۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ اسرائيل کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پیروی کرے اور عام شہریوں کے درمیان امدادی سامان کی تقسیم کے عمل کو تحفظ فراہم کرے۔ اس سانحے کی ذمہ داری ان پابندیوں اور رکاوٹوں پر ہیں جو اسرائيلی فوج اور تشدد پسند شدت پسندوں نے عائد کر رکھی ہيں۔
جوزپ بورل نے کہا: اس سانحے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ سے قلت، بھوک اور بیماری پیدا ہوتی ہے اور حالات خراب ہوتے ہيں۔ ہم انسان دوستانہ امداد کی تقسیم میں اسرائيل کی جانب سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی مذمت کرتے ہيں۔ ہم اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ پوری طرح سے تعاون کرے اور تمام گزر گاہوں کے ذریعے انسان دوستانہ امداد کی محفوظ ترسیل کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا: ہم سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کرتے ہيں کہ وہ فوری طر
ح پر جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرے اور عام شہریوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے انسان دوستانہ امداد تک ضرورت مندوں کی مکمل رسائي کو یقینی بنائے ۔
واضح رہے جمعرات کو شمالی غزہ میں امداد رسانی کے وقت صیہونی فوج کے حملے میں دسیوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ حماس نے اسرائيلی فوجیوں کو اس قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ اسرائيلی حکومت کا دعوی ہے کہ زيادہ تر لوگ بھگدڑ کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائيل کے حملے میں 104 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہيں۔
واضح رہے فلسطینی مجاہدوں نے 7 اکتوبر سن 2023 میں الاقصی طوفان نام سے غزہ سے ایک آپریشن شروع کیا تھا۔
45 دنوں تک جنگ جاری رہنے کے بعد 24 نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئي جس کے دوران قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔
7 دنوں تک جاری رہنے کے بعد عبوری جنگ بندی ہو گئي اور پہلی دسمبر سے صیہونی حکومت نے غزہ پر پھر سے حملے شروع کر دیئے جو اب تک جاری ہیں اور بڑے پیمانے پر عام شہری شہید ہو رہے ہيں۔