ارنا کے مطابق، سید حسن نصر اللہ نے جمعہ کے روز شہید کمانڈروں کی برسی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نبطیہ اور الصوانہ پر جارحیت سوچا سمجھا اقدام تھا حالانکہ دشمن چاہتا تو وہ عام شہریوں کے قتل عام کو روک سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم عام شہریوں کی شہادتیں کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے اور اس کا جواب ضروری دیا جائےگا۔
انکا کہنا تھا کہ ہم میدان جنگ کے مرکز میں ایسے محاذ پر ہیں جو 100 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور متعدد مزاحمت کاروں کی شہادت اس معرکہ کا حصہ ہے۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عام شہریوں کو نشانہ بنایا جانا ہمارے لیے بہت حساس ہوتا ہے اور ہم شہریوں کو نقصان پہنچانے کے معاملے کو برداشت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنی حدود سے باہر نکل گیا ہے اور عام شہریوں کے قتل عام سے دشمن کا ہدف مزاحمت پر دباؤ ڈالنا ہے کیونکہ 7 اکتوبر 2023کے بعد سے تمام دباؤ کا ہدف جنوبی محاذ کو روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دشمن کو النبطیہ، الصوانہ اور دیگر علاقوں میں ہماری خواتین اور بچوں کا خون بہانے کی قیمت ادا کرنی ہوگی اور شہریوں کے خون کی قیمت فوجی اڈے نہیں بلکہ خون ہے۔
نصر اللہ نے کہا کہ حزب الہ میزائل طاقت رکھتی ہے جنکی رینج کریات شمونہ سے ایلات تک ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں اس بات پر تاکید کی کہ منافقت کا سب سے بڑا واقعہ جس کا آج کی دنیا مشاہدہ کر رہی ہے وہ غزہ کی پٹی کے حوالے سے امریکی حکومت کا موقف ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر امریکہ صیہونی حکومت کو اسلحہ اور دیگر امداد بند کر دے تو نیتن یاہو پسند کریں یا نہ کریں، جنگ براہ راست بند ہو جائے گی۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ حماس کو تباہ کرنے کے معاملے میں امریکہ اسرائیل سے زیادہ اصرار کرتا ہے کہا کہ خطے میں بہنے والے خون کے ہر قطرے کی ذمہ دار امریکی حکومت ہے اور اسرائیلی حکام اس پر عمل درآمد کا واحد ذریعہ ہیں۔