دونوں ہمسایہ ممالک اور ان کے عوام کے درمیان پائے جانے والے یہ رشتے دو ریاستوں کے رسمی تعلقات سے کہیں زیادہ بالاتر ہیں اور اس بات سے قطع نظر کہ ان دونوں ہمسایوں میں سے ہر ایک میں کون سی پارٹی یا کون سی حکومت بر سر اقتدار ہے، یہ دونوں ملکوں کے عوام ہیں جو اپنے بھرپور اور تاریخی رشتوں اور مشترکہ اقدار کی وجہ سے دونوں پڑوسیوں کی دوستی کی اہم ترین کڑیاں شمار ہوتے ہیں۔
1947 میں جب پاکستان نے آزادی حاصل کی تو ایران پہلا ملک تھا جس نے اس کی آزادی کو تسلیم کیا اور دوسری جانب پاکستان نے 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور یہ دو طرفہ اور تاریخی اقدام دونوں ملکوں کے تعلقات کی اہم ترین بنیاد بن گیا۔
علاوہ ازیں ایران اور پاکستان کے عوام کا ایک دوسرے کی ممتاز اور مقبول شخصیات سے قلبی لگاؤ دراصل دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی دوستی نیز ثقافتی اور عوامی تعلقات کی گہرائی اور گیرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
1877 کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے عصر حاضر کے معروف شاعر محمد اقبال لاہوری المعروف علامہ اقبال کو دونوں ملکوں کے عوام میں خاص احترام حاصل ہے جنہوں نے فارسی اور اردو میں بہت سی لازوال نظمیں تحریر کی ہیں اور ان میں سے کچھ نظمیں دونوں ملکوں کی نصابی کتابوں میں شامل ہیں اور طلبہ کو پڑھائی بھی جاتی ہیں۔
اقبال وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ملک کا نظریہ پیش کیا اور یہی خیال بالآخر قیام پاکستان کا باعث بنا۔ اقبال لاہوری کو اس ملک میں سرکاری طور پر ’’قومی شاعر‘‘ کہا جاتا ہے اور پاکستان میں ان کا یوم پیدائش ہر سال ’’یوم اقبال‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔
ایران کی نصابی کتب میں اس عظیم پاکستانی شاعر کے اشعار کی شمولیت، ایران کے دار الحکومت تہران نیز مشہد اور کئی دوسرے شہروں کی سڑکوں اور خیابانوں کو ان کے نام سے منسوب کیا جانا، ایرانی عوام کی نگاہوں میں علامہ اقبال کے خاص احترام اور ان کے مقام و منزلت کی نشانی ہے۔
نیز، بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای سمیت اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ممتاز شخصیات کے لیے پاکستانی عوام کی والہانہ محبت کا اظہار، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پائے جانے والے قلبی اور اٹوٹ رشتوں کی علامت ہے۔
گزشتہ برس اس دار فانی سے کوچ کرجانے والے پاکستان کے فارسی گو شاعر اور مترجم مرحوم سید محمد اکرم نے 22 دسمبر 2015 کو آیت اللہ خامنہ ای کے دورہ پاکستان کی 30 ویں سالگرہ کے موقع پر ارنا کو دیئے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں اس دورے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا تھا " ان کے (آيت اللہ خامنہ ای) ایک ایک لفظ اور نظر میں محبت اور الفت بسی ہوئی تھی، ان کی باتوں اور کردار میں عجیب جاذیبت تھی ، جب انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں بات کی تو میں سمجھ گیا کہ وہ پاکستان کے ثقافتی اور سیاسی پیش منظرکو بخوبی دیکھ رہے ہیں، پاکستان کے عوام جو ایران کو دل جان سے چاہتے ہیں، سید عالم دین کے عاشق ہیں۔ "
آیت اللہ خامنہ ای بھی شعرا کے ساتھ اپنی سالانہ ملاقات میں پاکستان کے اس فارسی گو شاعر کے ساتھ خاص احترام سے پیش آتے اور انہیں اچھے القاب سے نوازا کرتے۔
مرحوم سید محمد اکرم اس 3 روزہ سفر کے تمام مراحل میں صدر ایران کے مترجم کی حیثیت سے ان کے ساتھ تھے۔
پاکستان کے عوام نے پچھلے برسوں کے دوران اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر دارالحکومت اسلام آباد میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان پائے جانے والے دوستانہ اور برادارانہ تعلقات پر منبی بینر نصب کرکے، ایران پاکستان کے تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کا جشن بھی منایا تھا۔
دونوں قوموں کے درمیان ان قلبی اور جذباتی رشتوں کے علاوہ، دونوں ممالک کے عوام مشترکہ دینی، لسانی، ثقافتی اور تاریخی وجوہات کی بنیاد پر، ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گھلے ملے ہیں اور ان کے درمیان اتنا مضبوط رشتہ قائم ہوگيا ہے کہ پوری جرائت کے ساتھ کہا جارہا ہے کہ اس رشتے کو توڑنا تقریبا ناممکن ہے جبکہ ایران کے عوام بھی اپنے ملک کے خلاف 8 سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران پاکستان کے غیر جانبدارانہ موقف اور اس عرصے کے دوران کیے جانے والے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دوسری جانب ایران اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والے تقریباً 1000 کلومیٹر مشترکہ سرحدیں دونوں ممالک کے عوام بالخصوص سرحدی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کے درمیان تجارتی لین دین کی بہت زیادہ گنجائش رکھتی ہیں جو دونوں فریقوں کے لیے انتہائي منافع بخش ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا فروغ خود بخود باہمی تعلقات کی تقویت کا سبب بنے گا۔
انتی زبردست گنجائش کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ممالک کی حکومتوں اور متعلقہ حکام کو دوطرفہ تجارتی سرگرمیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور ایک دوسرے کی اقتصادی اور تجارتی صلاحیتوں کو سمجھنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ دو طرفہ گنجائشوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے، اور اگر ایسا ممکن ہوجائے تو ایران اور پاکستان خطے کی دو بڑی معیشتوں اور دو تکمیلی معیشتوں کے طور ایک دوسرے کی ضرورت کا بڑا حصہ پورا کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اہم علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں بھی ایران اور پاکستان کے نقطہ نظر میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے جس میں سامراج اور ظلم سے نفرت، غاصب اور جرائم پیشہ صیہونی حکومت کے بارے میں مشترکہ موقف، عالمی تنظیموں اور اداروں میں یکساں رجحان اور ایک دوسرے کی حمایت ایسے معاملات بھی دونوں ملکوں اور قوموں کے درمیان اٹوٹ رشتوں اور گہری دوستی کا ایک اور ثبوت ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم سمیت اہم علاقائی اور بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے دو اہم رکن ہونے کے ناطے، ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کے بہت سے شعبے ایسے ہیں، جو اپنے آپ میں دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی توانائی رکھتے ہیں۔
بلاشبہ ایران اور پاکستان کے عوام کو جوڑنے والے ایک ایک عنصر کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ دونوں ہمسایہ اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی بنیادیں اس قدر گہری ہیں کہ سرحدوں پر رونما ہونے والے واقعات اور مسائل بھی دونوں دوست قوموں اور پڑوسی ممالک کے درمیان اس دوستی کی آہنی دیوار میں دراڑ نہیں ڈال سکتے۔
دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور مشترکہ اقدامات، سرحدوں اور سرحدی علاقوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کا عزم، اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا، منشیات کے خلاف ٹھوس اقدامات ، سرحدی منڈیوں کا انتظام اور رونق بخشنا ، بدستور دونوں ملکوں کے عوام کی توقعات اور مطالبات میں شامل ہے اور بلاشبہ یہ اقدامات باہمی تعلقات کے زیادہ سے زیادہ استحکام اور فروغ پر منتج ہوں گے۔