IRNA کو انٹرویو دیتے ہوئے ناصر ابو شریف کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو مزاحمت کے محور کا انجینئر سمجھا جاتا ہے اور آج ہم مزاحمت کے محور کی کامیابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ نے صیہونی حکومت کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ پر مجبور کر دیا ہے جب کہ اسے اب تک کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
ناصر ابوشریف نے کہا کہ 2005 میں جب یہ منصوبہ فلسطین میں شروع ہوا تو غزہ کی پٹی صیہونی حکومت کے قبضے میں تھی اور غزہ کے لوگوں کے لیے ہتھیار حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ عظیم منصوبہ تحریک مزاحمت کی مختلف کڑیوں کے درمیان باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا اور جنرل قاسم سلیمانی نے اس میکینزم کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی نگاہیں ہمیشہ بیت المقدس پر تھی اور وصیت کیا کرتے تھے کہ ہمارے ہر اقدام کا محور بیت المقدس ہونا چاہیے۔
ناصر ابو شریف نے کہا کہ جنرل رضی موسوی بھی اسی راہ کے قائدین میں سے ایک تھے۔ وہ 2001 سے خطے میں تحریک مزاحمت کے لیے کام کر رہے تھے اور ہتھیاروں کی فراہمی ان کا بنیادی کام تھا۔
ابو شریف: مستقبل قریب جنگ بندی کا امکان انتہائی قوی ہے
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندے ناصر ابو شریف نے اپنے انٹرویو کے ایک اور حصے میں کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کا امکان بہت قوی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصر جیسی حکومتیں صیہونی حکومت کی جانب سے مزاحمتی گروہوں کے ساتھ سودے بازی کر رہی ہیں اور کم از کم ایک سیاسی فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ناصر ابو شریف کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کے ایک گروپ کے بدلے جنگ بندی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی کے خواہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائيل کا سب سے اہم مطالبہ جسے وہ مصری حکومت اور دیگر مذاکرات کاروں کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، تحریک مزاحمت کے بعض اہم رہنماؤں کو غزہ سے بے دخل کرنا ہے لیکن فلسطینی مذاکرات کار مسلسل جنگ کے مکمل اور مستقل خاتمے، صیہونی حکومت کی جیلوں سے تمام قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے مطالبات پر زور دے رہے ہیں۔