انصار اللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا: غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت اور اس علاقے کا محاصرہ نیز وہاں دواؤں اور اشیائے خورد و نوش کی ترسیل میں رکاوٹ سے براہ راست عام فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سید عبد الملک بدر الدین الحوثی نے کہا: گزشتہ 75 برسوں سے صیہونیوں نے غزہ اور فلسطین کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس دوران انہوں نے بدترین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
انہوں نے کہا: صیہونی حکومت وحشیانہ طور پر فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے اور ان کے خلاف بد ترین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔
عبد الملک الحوثی نے اسی طرح کہا: غاصب صیہونیوں نے غزہ کے اسپتالوں کو فوجی ہدف قرار دیا ہے اور غزہ میں اپنے جرائم پر فخر کرتے ہیں اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے کہا: صیہونی فوج کی اکثر بمباری میں رہائشی علاقے اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے کہا: امریکہ اور صیہونی حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی چیز غزہ نہيں بھیجی جا سکتی جبکہ واشنگٹن صیہونی حکومت کو جنگي طیارے، ممنوعہ اسلحے فراہم کرتا ہے جس میں سفید فاسفورس بھی شامل ہے۔ اسی طرح امریکہ فوجی مشیروں اور ماہرین کے ذریعے بھی غزہ پر صیہونی جارحیت میں تعاون کر رہا ہے۔ اس لئے غزہ میں جو بھی ہو رہا ہے اس میں امریکہ شریک ہے اور وہ علاقے میں اپنی تمام چھاونیوں سے صیہونی حکومت کی مدد کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا: صیہونی فوج کو جب بھی میدان جنگ میں شکست ہوتی ہے وہ غزہ کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتی ہے جبکہ امریکہ اسلحہ جاتی اور لاجسٹک مدد کے ساتھ ہی سیاسی طور پر بھی پوری طرح سے صیہونی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے اور جنگ بندی کے لئے پیش کی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے۔
عبد الملک الحوثی نے کہا: کچھ لوگ فلسطینیوں، مجاہدوں اور ان کے حامیوں پر سوال کھڑے کر رہے ہیں، یورپی ملکوں کی جو سیاہ تاریخ ہے اس کے پیش نظر ہمیں ان سے فلسطینی قوم کی حمایت کی امید نہيں ہے بلکہ اصل ذمہ داری مسلمانوں کے کاندھوں پر ہے اور انہيں ایک آواز میں فلسطینیوں کی حمایت کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: اسلامی سربراہی اجلاس کا موقف بھی کمزور تھا اور بس بیان کی حد تک ہی تھا۔ فلسطین سے جن ملکوں کی سرحدیں ملتی ہيں ہم نے ان سے اپیل کی کہ وہ مجاہدوں کو فلسطین بھیجنے کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں ۔ ہماری قوم نے بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں مقبوضہ فلسطین جانے والے بحری جہازوں کو روکنے کے لئے فوجی کارروائی کی ہے۔
انہوں نے کہا: امریکہ اسرائیلی بحری جہازوں کی مدد کے لئے میدان میں آ گيا ہے دوسرے ملکوں کو اس سے الگ رہنا چاہیے اور اسرائيل کے لئے اپنے مفادات کو نقصان نہيں پہنچانا چاہیے ، ہمیں سب سے زیادہ جو چیز پسند ہے وہ امریکہ اور اسرائيل کے ساتھ براہ راست جنگ ہے نہ کہ امریکی ایجنٹوں کے ساتھ۔
انہوں نے کہا: ہمیں امید ہے کہ عرب ملک ایک کونے میں کھڑے ہوکر تماشا دیکھیں گے اور ہمیں اسرائیل و امریکہ سے براہ راست دو دو ہاتھ کرنے دیں گے۔ ہماری عرب ملکوں سے اپیل ہے کہ وہ امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اس تصادم میں شامل نہ ہوں۔
انہوں نے کہا: "اگر امریکہ ہماری قوم سے تصادم کا خواہاں ہے، تو اسے افغانستان اور ویتنام سے زیادہ بھیانک صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ یہ نہ سمجھے کہ وہ ادھر ادھر سے وار کرے گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا بلکہ اسے پوری طرح سے جنگ میں شامل ہونا پڑے گا"