یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد کہی۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دوران، سب سے پہلے میں مین نے یوکرین کے مسئلے کے حوالے سے پر ایک یورپی رہنما کا پیغام کو پہنچایا جس میں جس میں یورپی ممالک نے ایرانی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے کچھ نظریات پیش کریں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کچھ خیالات موجود ہیں اور ہم نے یوکرین میں انسانی مسائل پر بھی بات کی۔
اس موقع پر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ہم اقتصادی شعبے میں ایران کے ساتھ طویل المدتی تعاون کی دستاویز پر کام کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات اسٹریٹجک سطح پر جا رہے ہیں اور اقتصادی روڈ میپ تیار کرنا ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال ہم ایران اور یوریشین اکنامک یونین کے درمیان فری تجارتی زون کے قیام کے معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔
روسی وزیر خارجہ نے پابندیوں کے ہٹانے کیلیے ایران اور 4+1 کے درمیان مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم جوہری معاہدے کی بحالی اور سب ایران مخالف پابندیوں کی منسوخی کی حمایت کرتے ہیں۔ اور بہت سے مسائل میں ہمارا موقف ایران کا موقف کی طرح ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے تجارتی، اقتصادی، ٹرانزٹ، ماہی گیری، دفاع اور سیکورٹی کے مسائل پر بات کی۔ ہمیں خوشی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم موجودہ صلاحیتوں کے پیش نظر اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
امیر عبداللہیان نےعلاقائی مسائل بشمول افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے کہا کہ ہم افغانستان میں تمام طبقوں اور گروہوں کی شرکت کے ساتھ ایک جامع حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے شامی مسئلے کے حوالے سے کہا کہ ہم آستانہ امن عمل کے فریم ورک میں شام کو موجودہ صورتحال سے نکلنے میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
حسین امیر عبداللہیان نے یمن کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ ہم یمن کے مسئلے میں پائیدار جنگ بندی اور اس ملک میں امن و استحکام کی واپسی اور یمن کی ناکہ بندی کے مکمل خاتمے کے خواہاں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم(ایران اور روس) عراق کی حمایت کے تسلسل اور اس ملک کے استحکام کے فروغ پر متفق ہیں اور ہم اس ملک میں استحکام اور سلامتی کی واپسی پر بہت خوش ہیں اور امن و استحکام میں رہنماؤں اور حکام کا کردار قابل قدر ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پابندیوں کی منسوخی کے بارے میں ہمیں امریکہ کی جانب سے تازہ ترین متن موصول ہوا ہے اور میرے ساتھی امریکی فریق کی تجاویز کا بغور اور تیزی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ضمانت کیلیے ایک مضبوط متن کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم معاہدے تک پہنچنے کیلی سنجیدہ ہیں اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو اپنے سیاسی رویے سے خود کو دور رکھنا اور صرف اپنے تکنیکی کام پر توجہ دینی چاہیے۔ تمام فریقوں کی جوہری معاہدے میں میں واپسی کے بعد ایجنسی کی جانب سے کچھ سیاسی نظریات اور بے بنیاد الزامات کو دہرانا ایران کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران ایجنسی کے سیف گارڈ کے امور پر بھی توجہ دے رہا ہے اور اگر امریکہ حقیقت پسندی کا رویہ اپنائے اور موجودہ متن کو مضبوط کرے تو معاہدے تک پہنچنا دور کی بات نہیں ہوگی۔
انہوں نے پابندیوں کے خاتمے سے متعلق مذاکرات میں ایران کے منطقی موقف کی حمایت میں ماسکو کے کردار کو سراہتے ہوئے ہم اپنی تحقیقات کو حتمی شکل دینے کے بعد یورپی رابطہ کار کے ذریعے اپنے جواب کا اعلان کریں گے۔
امیر عبداللہیان نے جیوپولیٹیکل کے لحاظ سے ایران کی منفرد پوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم شمال -جنوب سمیت ٹرانزٹ گزرگاہوں کی مضبوطی کو خطے کی ترقی اور فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کی مدد میں ایک اہم عنصر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مغربی راہداری کے حوالے سے رشت-استاراخان کوریڈور کے نفاذ کے لیے تیار ہیں۔ اس راہداری پر ایران اور روس نے اتفاق کیا ہے اور اس منصوبے کے پہلے فیز کی تعمیر ایجنڈے میں شامل ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان آج بروز بدھ روسی دارالحکومت ماسکو روانہ ہوگئے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu