سید کمال خرازی نے کہا کہ ٹرمپ کے بیانات، بعض امریکی اعلی عہدے داروں کی جانب سے امریکی صدر کے خط کی جانب مبہم اشاروں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں پروپیگیںڈے کا مقصد، ایران کے اندر جھوٹی امیدوں کے ذریعے الجھن اور اختلاف ڈالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن معاشی پابندیوں اور فوجی دھونس دھمکیوں کے سائے میں ایران کو ایسے مذاکرات کرنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے کہ جس کے نہ اصول واضح ہیں نہ ہی نتیجے کا کوئی یقین ہے۔
سید کمال خرازی نے کہا کہ ماضی کے تجربے کی بنیاد پر، واشنگٹن کے وعدوں حتی کہ دستخط پر کسی بھی قسم کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اس اسٹریٹیجی کے ذریعے اپنے فیصلوں کو ایران پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
ایران کے خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ نے کہا کہ اگر ٹرمپ ایران اور ایرانی قوم کے جذبے سے واقف ہوتا تو ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے یقینا کوئی دوسرا طریقہ اپناتا۔
انہوں نے کہا کہ اس سرزمین کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ گواہ ہے کہ ایرانی عوام ذلت کو برداشت کرتے ہیں نہ ہی دشمن طاقتوں کی دھونس دھمکیوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت عراق کی بعث حکومت کے مقابلے میں ایران کا شاندار دفاع ہے جبکہ صدام کو امریکہ اور تمام بڑی طاقتوں کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران جنگ، سیاسی دباؤ اور معاشی پابندیوں کو بسر اور ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے اپنی سلامتی اور خودمختاری کو مستحکم کرچکا ہے لہذا ٹرمپ کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ایسے ملک سے پنجہ لڑانا اس کی بڑی غلطی ثابت ہوگی۔
خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ نے کہا کہ واشنگٹن کو چاہیے تھا کہ ماضی کی غلطیاں دوہرانے کے بجائے، حقیقی مذاکرات کے اصول پر عمل اور برابری، باہمی احترام اور دھونس دھمکیوں سے پرہیز کرتے ہوئے ایرانی عوام کا اعتماد حاصل کرتا۔
انہوں نے کہا کہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے نئے حکمرانوں کا تاریخی حافظہ کمزور ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ان مذاکرات میں گھسیٹ سکتے ہیں جس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے۔
سید کمال خرازی نے کہا کہ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران نے سارے راستوں کو بند نہیں کیا ہے اور فریق مقابل کے دعووں کا اندازہ لگانے، اپنی شرائط پیش کرنے اور ضروری فیصلہ کرنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔