تہران(ارنا) صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران اور روس کے درمیان طے پانے والا طویل المدت اسٹریٹیجک معاہدہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک ناجائز مطالبات کرنے والوں کے ساتھ سرتسلیم خم نہیں کریں گے۔

روس کے ٹیلی ویژن چینل 1  کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ ایران نہ تو نیا ملک ہے اور نہ ہی ایسا ملک ہے جو  ناجائز مطالبات کرنے والوں کی سوچ کے مطابق تشکیل پایا ہے۔

اس گفتگو کے اہم ترین نکات درج ذیل ہیں۔

- ایران کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو ناجائز مطالبات کرنے والوں( سامراجی ممالک) کی پالیسیوں اور نظریات کے مطابق نیا نیا بنا ہے۔ فطری طور پر، ہم نے روس کے ساتھ جو طویل مدتی اور سٹریٹجک معاہدہ کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو روس اور نہ ہی ایران ان مطالبات کو ماننے والے ہیں جو وہ ہم سے  کر رہے ہیں، اور یہ کہ ہم پالیسیوں، امن و سلامتی کے قیام اور ترقی کے حصول کی طاقت  رکھتے ہیں اور خطے میں معیشت کو ایک دوسرے اور مل کر ترقی دینا چاہتے ہیں۔

- کسی بھی بین الاقوامی ضابطے یا قانون نے کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ جنگ میں بھی بے گناہ لوگوں پر بمباری اور ان کا قتل عام کرے، لیکن صیہونی حکومت( اسرائیل) یہ کام آسانی سے کرتے ہیں۔ جو لوگ انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں اور بین الاقوامی ضابطوں کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اس کا ساتھ کھڑے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں ان کے دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں۔

اب وہ دنیا کے سامنے یہ  پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم کا خواہاں ہے، جب کہ رہبر انقلاب اسلامی کی رائے، ہماری پالیسیاں، عقائد اور  نظریات دونوں اس حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے۔

غزہ کے بے گناہ لوگوں کے پاس نہ پانی تھا، نہ روٹی یا کھانا تھا، اور نہ ہی انہیں  امداد کی اجازت دی گئی، امریکہ اور یورپ صرف دیکھتے  رہے۔ یہ بات میرے لیے سمجھ نہیں آتی کہ وہ دنیا اور اپنے حامیوں کے ذہنوں میں یہ بات کیسے ڈال سکتے ہیں کہ ایران بدامنی کا باعث ہے اور صیہونی حکومت سلامتی کا باعث ہے؟

-میں نے دنیا کو جو نعرہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کسی کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم ظلم و ستم  کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں جو طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور طاقت کی بات کرتے ہیں اور غریب ممالک کے وسائل، سہولیات اور دولت کو لوٹتے ہیں۔

- عقیدہ کے لحاظ سے، ہم سمجھتے ہیں کہ تمام الہی مذاہب خدا کی طرف سے آئے ہیں اور قابل احترام ہیں۔ جس طرح ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں اسی طرح ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں کیا ہم یہود مخالف ہو سکتے ہیں؟ جبکہ ان کے نبی حضرت موسیٰ ہیں۔ کیا ہم عیسائیت سے متصادم ہو سکتے ہیں جب کہ ہم یسوع مسیح کو خدا کا نبی اور ان کے راستے کو خدا کا راستہ مانتے ہیں؟

-ایک خودمختار شخص، ایک باپ، انتظامیہ کے سربراہ، یا حکمران کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ہر کسی کو اس کی اہلیت کی بنیاد پر اس کا مقام دیں، خواہ اس کا مذہب، عقیدہ یا نظریہ کچھ بھی ہو، اور اسے اس مقام پر قبول کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہاں پہنچ جاتے تو میں سمجھتا ہوں کہ سارا جھگڑا اور فساد ہی ختم ہوجائے گا۔

جاری ہے۔