القاہرہ الاخباریہ اخبار کے مطابق، فلسطین کی استقامتی تنظیم حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حماس کی جانب سے ذمہ داری اور لچک کا مظاہرہ کیا گیا لیکن غاصب حکومت نے اپنے فوجیوں کے انخلا، جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور بے گھر فلسطینیوں کی وطن واپسی کے سلسلے میں نئی شرطیں لگا دیں جس کے نتیجے میں معاہدے کے حصول میں دیر لگ رہی ہے۔
کچھ دیر قبل صیہونی ٹی وی چینل نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ حماس نے تبادلے کے پہلے مرحلے میں واپس بھیجنے جانے والے زندہ اور ہلاک ہونے والے صیہونیوں کی فہرست فراہم کرنے کی مخالفت کی ہے۔
صیہونی ٹی وی چینل نے حماس کو معاہدے کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار ٹہرانے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب ایسی خبریں موصول ہوئی ہیں کہ صیہونی حکومت کا وفد دوحہ سے واپس چلا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ٹی وی نے دعوی کیا ہے کہ مذاکرات میں پیشرفت حاصل ہونے کی صورت میں غاصب حکومت کی مذاکرات کار ٹیم ایک بار پھر دوحہ جانے کے لیے تیار ہے۔
ان ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ حماس قیدیوں کی فہرست فراہم نہیں کرنا چاہتا اور اس لحاظ سے ان کے بقول "محمد السنوار اپنے بھائی یحیی سنوار سے بھی زیادہ شدت پسند ہیں۔"
ادھر نتن یاہو کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کی مذاکرات کار ٹیم میں موساد، شاباک اور فوج کے نمائندے شامل ہیں۔
صیہونی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی تل ابیب میں سیاسی فیصلوں سے وابستہ ہیں۔
اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اور تعطل کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔