سید عباس عراقچی نے جمعرات کی صبح رافائل گروسی سے ملاقات اور گفتگو کے بعد ہمارے نمائندے کو بتایا کہ آئی اے ای اے کے سربراہ سے گفتگو مناسب اور تعمیری رہی۔ انہوں نے بتایا کہ بات چیت کے دوران ایران اور ایٹمی ایجنسی کے سامنے آئندہ ایک سال کے تعاون کے راستے کا جائزہ لیا گیا جو کہ انتہائی حساس سال ہونے والا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ رافائل گروسی کو بتا دیا گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ماضی میں ہونے والے سمجھوتے کے حدود میں رہتے ہوئے، ایٹمی مذاکرات اور تعاون کے لیے تیار ہے البتہ تعاون کی سطح فریق مقابل کی سنجیدگی سے وابستہ ہے۔
سید عباس عراقچی نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی لیکن فریق مقابل اس معاہدے سے نکل گیا۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ ہمیں اپنے ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے پر یقین ہے اور آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون میں بھی ہمیں کوئی مسئلہ نہیں اور ہم تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار بھی ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ فریق مقابل بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مذاکرات ایران اور ایجنسی اور دیگر فریقوں کے مابین کشیدگی کم کرنے کا ایک اچھا طریقہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ حالات بگڑنے سے قبل، ان مذاکرات کے ذریعے کوئی معقول راہ حل تلاش کی جا سکے گی۔
سید عباس عراقچی نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا کسی نئے سمجھوتے کی بنیاد، مارچ 2023 میں ہونے والا سمجھوتہ ہوگا کہا کہ تعاون کی بنیاد گروسی کے رواں دورے میں ہونے والی مفاہمت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سمجھوتوں کو بھی مدنظر رکھا جائے گا لیکن فنی طریقہ کار کا تعین آئی اے ای اے اور ایٹمی توانائی کے قومی ادارے مل کر کریں گے جبکہ سیاسی لحاظ سے بھی نیا راستہ کھولنے پر متفق ہیں۔
وزیر خارجہ نے زور دیکر کہا کہ مشکلات کا حل مذاکرات کے راستے سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مقابلہ آرائی کا راستہ آزما چکا ہے اور دوبارہ آزما بھی سکتا ہے لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ اسے کوئی فائدہ نہیں مل سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف قراردادیں جاری کرکے بھی نہ صرف کوئی معاملہ حل نہیں ہوسکا بلکہ مسائل اور بھی پیچیدہ ہوتے چلے گئے اور ان قراردادوں کو جاری کرنے والے ممالک کی پریشانی میں ہی اضافہ ہوا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ فریق مقابل بھی عقلمندی پر مبنی پالیسی اپنا کر تعاون کا راستہ اختیار کرے گا۔