پیر کو تہران میں ہفتہ وار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران، وزیر خارجہ نے خطے کے ممالک کا دورہ یا ٹیلی فون پر رابطے کیے ہیں اور وہ عنقریب پاکستان کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کامقصد دو طرفہ تعلقات کے علاوہ علاقائي صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کا تحفظ ایک تسلیم شدہ اصول ہے جبکہ صیہونی حکومت کی جارحیت جواب میں ہمارا ردعمل بھی پوری طرح واضح ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ یہ فطری بات ہے کہ ہم صیہونی حکومت کی جارحیت کے جواب میں اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لائيں گے۔
انہوں نے کہا کہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی نابودی اور جوہری پروگرام کی پر امن کی نوعیت کے بارے میں ہمارا موقف پوری طرح واضح ہے لیکن جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ ایران کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہوا وہ انجام دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی عدم استحکام کا باعث ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کا ایک طے شدہ اصول ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جب تک امریکہ سمیت غیر ملکی افواج خطے میں موجود ہیں کشیدگي بھی باقی رہے گی۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان واضح کیا کہ یہ مسئلہ (خطے میں امریکی موجودگی) اپنے دفاع کے لیے ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خطے کے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں۔
غزہ کی صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ اور صیہونی حکومت کے حامیوں کی طرف سے مسلط کردہ رکاوٹوں کی وجہ سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائيل کے خلاف ٹھوس اور معنی خیز اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ 11 نومبر کو ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس میں ہم اس مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔