ارنا کے مطابق ریمدان دستاویزی فلم کے ہدایتکار محمد حسین عباس توپچی نے ارنا ٹی وی کے نامہ نگار کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ انھوں نے اس فلم میں پاکستانی شیعوں کی مظلومیت دکھانے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ فلم دراصل ان ایرانی خادمین کی روایت پر مبنی ہے جو ریمدان سرحد پر پاکستان کے زائرین اربعین کی خدمت کرتے ہیں۔
پاکستان کے زائرین اربعین حسینی پہلے صرف میرجاوہ سرحد سے ہی ایران آتے تھے اور یہاں سے عراق جاتے تھے ۔ لیکن میرجاوہ سرحد تک پہنچنے کے راستے میں بعض اوقات پاکستان کے انتہا پسند دہشت گرد زائرین پر حملہ کردیا کرتے تھے۔
ایران اور پاکستان کے درمیان ریمدان زمینی سرحد کھلنے کے بعد دوسال سے بڑی تعداد میں اربعین حسینی میں شرکت کے لئے کربلائے معلی جانے کے لئے زائرین اس سرحد سے بھی ایران میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں سے عراق کی سرحد کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی یہ دستاویزی فلم ریمدان سرحد سے ایران پہنچنے والے زائرین اربعین سے ہی تعلق رکھتی ہے۔
عباس توپچی نے اس دستاویزی فلم کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس دستاویزی فلم میں ایران پہنچنے پر راہ کربلا کے زائرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور خدامات نیز ان کے احساسات کی عکاسی کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس دستاویزی فلم میں ایران کے اہل سنت بلوچ خادمین زائرین کو دکھایا گیا ہے کہ وہ کس طرح پاکستانی زائرین اربعین کی خدمت کرتے ہیں۔ پاکستانی بچوں کو پولیوویکسین دینے کے مناظر میں بھی اس فلم میں شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس دستاویزی میں طبی خدمات اور زائرین کو خصوصی انداز میں رخصت کرنے کے مناظر بھی شامل ہیں۔
دستاویزی فلم "ریمدان" کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم نے اس فلم میں ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کی ایک دوسری شبیہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔
ایران کے دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر محمد حسین عباس توپچی نے اس انٹرویو میں بتایا کہ پاکستانی زائرین ایران میں داخل ہوتے ہيں توایران کی زمین کو بوسہ دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی زائرین کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی قدرکو سمجھیں کیونکہ آپ آزادی کے ساتھ عزاداری کرسکتے ہیں۔ پاکستانی زائرین ایران میں پہنچنے کے بعد آزادی کا احساس کرتے ہیں اور مجلسیں نیز نوحہ خوانی کرتے ہیں۔