العربی الجدید نیوز سائٹ نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی پٹی پر حملے کے آغاز کے بعد صیہونی حکومت کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شدید افراط زر اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں معیار زندگی میں گراوٹ کے تناظر میں،7 اکتوبر2023 کو غزہ کی پٹی کے خلاف تباہ کن جنگ کا آغاز اور فلسطینی مزاحمت کے آپریشن نے اسرائیلی معیشت کو مزید تباہ کر دیا۔
بگڑتی ہوئی اقتصادی صورتحال نے صیہونی حکومت کو معذور کر دیا
صہیونی ماہرین اقتصادیات نے مئی کے اوائل میں واشنگٹن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اندازہ لگایا تھا کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ میں صیہونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کو یومیہ 220 ملین ڈالر خرچ کرنے پڑے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ رواں سال صیہونی معیشت کی شرح نمو میں ٪1.6کی نشاندہی کرتے ہیں جو گزشتہ پیشین گوئیوں کے مقابلے میں ٪3.1 کم ہوئی ہے۔
17 اپریل کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی تھی کہ صیہونی حکومت کی اقتصادی ترقی کی شرح رواں سال 2024 میں، گزشتہ جنوری کے مقابلے میں آدھی رہ جائے گی، اور اس کی وجہ غزہ کے خلاف جنگ کا جاری رہنا اور حزب اللہ کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لڑائیاں ہیں۔
صیہونی ویب سائٹ گلوبز نے صیہونی وزارت خزانہ کے اکاؤنٹنٹ جنرل یالی روٹنبرگ کے حوالے سے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کا مالی خسارہ مجموعی ملکی پیداوار کے ٪5.6 تک پہنچ گیا ہے جو 105.3 بلین شیکل (29.25 بلین ڈالر) کے برابر ہے جبکہ گزشتہ جنوری میں یہ شرح ٪8۔4 تھی۔
2024 کے لیے صیہونی حکومت کا نظرثانی شدہ بجٹ ٪6.6 کے خسارے کے گرد گھومتا ہے لیکن اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق اصل خسارہ پیداوار کے ٪9 تک پہنچ چکا ہے۔
صیہونی حکومت کی وزارت خزانہ کے مطابق آئندہ سال ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو ٪1 سے بڑھا کر ٪18 کیا جائے گا تاکہ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کے باعث بجٹ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2002 کے بعد یہ دسویں مرتبہ ہے کہ اس ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔
تعمیراتی شعبے میں کساد بازاری
مئی کے آغاز میں صیہونی حکومت کی کنٹریکٹرز یونین کے سربراہ راؤل سرجو نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو سخت الفاظ میں خط بھیجا، جس میں انہوں نے نیتن یاہو کو خبردار کیا کہ تعمیراتی کمپنیاں بھاری قرضوں کا شکار ہیں۔
اس خط میں انہوں نے مزید کہا کہ 2022 کے اعدادوشمار کے مطابق تعمیراتی شعبہ ملکی پیداوار کا تقریباً ٪14 ہے، جب کہ اس شعبے میں سرگرم کمپنیوں پر بینکوں، اداروں اور کیپٹل مارکیٹ کے تقریباً ایک کھرب 300 ارب شیکل واجب الادا ہیں۔
قیمتوں میں اضافہ اور شیکل کی قدر میں کمی
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہیں اور یہ صہیونیوں کے احتجاج کا سبب بن رہا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے کالکالسٹ کی خصوصی ویب سائٹ نے 2 مئی کو صیہونی حکومت کے وزیر اقتصادیات نیر برکت کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے انہیں کمزور قرار دیا۔
"Haaretz" اخبار نے حال ہی میں اس مسئلے کے لیے اپنا اداریہ وقف کیا اور لکھا کہ "قیمتوں میں اضافہ ہفتوں کے بجائے اب روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔"