ارنا کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے شمالی غزہ میں واقع کمال عدوان ہسپتال میں 7 فلسطینی بچوں کی شہادت کی خبر دی۔
انکا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں امداد کو روکنے کی منصوبہ بندی تل ابیب نے نسل کشی کی پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے کی ہے۔
اشرف القدرہ نے غزہ کے لیے بین الاقوامی اداروں کی امداد کی درخواست پر صہیونیوں کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کمال عدوان اسپتال بند ہونے کے بعد غزہ کی پٹی کے شمال میں صحت کے مراکز مکمل طور پر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، اور اب بہت سے بچے ہسپتال کےانتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہیں اور غذا نہ ہونے کے باعث انکی زندگی خطرے میں ہے۔
اس انتباہ کے ساتھ کہ قابض صیہونی حکومت نے ایک نئی جنگ شروع کی ہے اور یہ جنگ فلسطینی عوام کو بھوک سے مارنے کے لیے ہے، انہوں نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ غزہ کی پٹی میں اس انسانی تباہی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (UNRWA) نے بھی گزشتہ بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ صیہونی فوج نے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد لے جانے والے قافلوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خوراک کے حق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری نے بھی حال ہی میں گارڈین اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خوراک تک رسائی سے انکار جنگی جرم ہے، اور اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا مار رہا ہے۔
مائیکل فخری نے مزید کہا کہ اسرائیل کو جنگی جرائم اور فلسطینیوں کو بھوک سے مارنے کے دانستہ طور پر قتل عام کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔
ارنا کے مطابق جب کہ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کے آغاز کو تقریباً 5 ماہ گزر چکے ہیں اور اس بحران کے حل کے لیے ثالثوں کی کوششیں جاری ہیں، اب تک تقریباً 30 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور قابض صیہونی حکومت نے غزہ کا محاصرہ کرکے معصوم عوام کا قتل عام کیا ہے اور خوراک اور امداد کی آمد کو روکنا ایک اور المیہ پیدا کر رہا ہے۔