ایران میں پارلیمانی انتخابات کے موقع پر پہلی بار ووٹ دینے والے کچھ لوگوں نے امام خمینی امام بارگاہ میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے واشنگٹن میں اسرائيلی سفارت خانے کے سامنے ایرون بوشنل کی خود سوزی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: امریکہ کی انسانیت سوز پالیسیوں کی فضحیت اس حد تک پہنچ گئي ہے کہ امریکی فضائیہ کا ایک افسر خود سوزی کر لیتا ہے۔
یعنی یہ فضیحت مغربی ثقافت میں پلنے بڑھنے والے نوجوان کے لئے بھاری ہے اور اس کے ضمیر کو بھی اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مغربی ثقافت کے انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: انسانیت سوز امریکی جرائم کو دیکھ کر تو یقینی طور پر ایک کے بجائے ہزار لوگوں کو خود سوزی کرنا چاہیے ۔ ایک شخص کا ضمیر بیدار ہوا ہے، اس نے خود سوزی کر لی۔ یعنی اس نے اپنی مغربی ثقافت کی قلعی کھول دی اور یہ ثابت کر دیا کہ یہ ثقافت کتنی خراب، منحرف و ظالم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح جمعہ کو پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں کہا: یہ بلیٹ باکس اور یہ انتخابات کا موقع آسانی سے ہمیں نہیں ملا ہے۔ ایک دور میں تو مکمل آمریت تھی اور پھر اس کے بعد بھی بظاہر انتخابات ہوتے تھے لیکن وہ بھی دکھاوے کے ہی تھے۔
رہبر انقلاب نے انتخابات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: انتخابات میں عوام کی شرکت، ملک کو چلانے کے اہم مواقع پر عوام کی موجودگي کا ثبوت ہے۔ یہ ملک کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عوام کے ایک ایک ووٹ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنا ایک بے حد آسان کام ہے لیکن اس کے نتائج بہت بڑے ہیں ، یہ ایک آسان کام ہے، انتخابات میں شرکت کوئي سخت کام نہيں ہے، ایک آسان کام ہے جس میں کچھ خرچ نہيں ہوتا لیکن اس کے نتائج بہت بڑے ہوتے ہيں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آخر میں غزہ کا ذکر کیا اور اسے عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: غزہ کے معاملات نے اسلام کو پوری دنیا کے سامنے متعارف کرایا اور یہ واضح ہو گيا کہ اسلام اور دین، صیہونیوں کی اس قدر بمباری اور جرائم کے سامنے عوام کے ڈٹے رہنے اور طاقت و اقتدار کا باعث ہے۔ اس سے پوری دنیا کے سامنے مغربی تمدن کی حقیقت بھی کھل گئي اور یہ واضح ہو گيا کہ اس ثقافت سے وجود میں آنے والے سیاست داں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو قبول کرنے پر بھی نہيں تیار ہيں اور بیان بازی کے باوجود، عملی طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرکے، ان جرائم کو روکنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال دیتے ہيں۔