ارنا کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ظالمانہ پابندیاں سماجی اور اقتصادی معاملات پر اثر انداز ہورہی ہیں جبکہ مسلسل جھوٹ بولا جارہا ہے کہ دواؤں اور صحت عامہ کے شعبے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی انجمن ہلال احمر اس حوالے سے پائی جانے والے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اپنی پوری توانائياں بروئے کار لارہی ہے۔
پیر حسین کولیوند نے کہا کہ اگرچہ انٹرنیشنل ریڈکراس فیڈریشن ہمیں بھرپور تعاون فراہم کر رہی تاہم بعض جانب سے مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی ہلال احمرکے پاس اب بھی "نائٹ ویژن ہیلی کاپٹر" نہیں ہیں اور کچھ ہیلی کاپٹروں کو اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔
بیرون ملک طبی مراکز کے قیام کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نئے طبی مراکز کا قیام اوربند مراکز دوبارہ کھولنا ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کے اہداف میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں ہلال احمر سوسائٹی کے 12 طبی مراکز کام کرر رہے ہیں جن میں اسپتال اور کلینک بھی شامل ہیں۔
ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ نے کہا کہ ضرورت پڑنے اور قانونی رکاوٹ نہ ہونے کی صورت میں بیرون ملک طبی مراکز کا قیام اور پہلے سے قائم مراکز کو پھر فعال بنانے کی کوشش کریں گے۔ مثال کے طور پر تاجکستان میں قائم ہمارا ایک طبی مرکز جو گزشتہ سال بند ہوگیا تھا اسے دوربار کھولا جارہا ہے۔
کولیوند نے واضح کیا کہ ہلال احمر کے طبی مراکزایران کی پہنچان ہیں اور ایرانی معاشرے کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
ہلال احمر سوسائٹی کے انسانی نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایران کے تیار کردہ طبی وسائل اور ادویات بھی بیرون ملک بھیجی اور مریضوں کو فراہم کی جائیں۔
کولیوند نے بتایا کہ ہلال احمر کے ساحلی مراکز 24 گھنٹے کام کرتے ہیں تاکہ بروقت خدمات فراہم کرسکیں۔