یہ بات سید علی خامنہ ای نے عید مبعث پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مناسبت سے آج صبح تہران کے حسینہ امام خمینیؒ میںقرآن کے بین الاقوامی مقابلوں میں شریک ایرانی حکام، غیرملکی نمائندے ، سفراء اور مہمانوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایران کے عوام، امت مسلمہ اور پوری دنیا کے حق پرستوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کی۔
انھوں نے بعثت نبوی کو، انسانیت کے لیے اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی تحفہ اور نعمت الہی بتایا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے خزانوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ توحید اور غیر خدا کی بندگي سے رہائي، بعثت کا سب سے عظیم خزانہ ہے کیونکہ پوری تاریخ میں جو بھی جنگ، جرائم اور خباثتیں ہوئي ہیں، ان کا سبب غیراللہ کی بندگي ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعثت نبوی کے عظیم اور کبھی نہ ختم ہونے والے خزانوں سے استفادے کو، امت اسلامیہ کی تمام مشکلات کا علاج اور دنیا و آخرت میں اس کی کامرانی کا راستہ بتایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعثت کے خزانوں کی تشریح کے لیے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے استقامت کو ہر مقصد کے حصول کی راہ بتایا اور کہا کہ عدل و انصاف کا قیام بھی اللہ کے بے نظیر تحفوں میں سے ہے جو بعثت نبوی کی نعمت کے سائے میں انسان کو عطا ہوا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے معاشرے کے افراد کے درمیان پیار، محبت، اپنائيت اور خلوص کو بعثت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور گرانقدر تحفہ بتایا اور کہا کہ دنیا کے سرکشوں سے اجتناب اور دوری اور جہل، تعصب اور جمود کی تاریکیوں اور زنجیروں سے رہائي، اسلام اور بعثت کے ہزاروں خزانوں میں سے ایک ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ بعثت کے خزانوں کو نہ پہنچاننا، ان کے سلسلے میں کفران نعمت کرنا اور عمل کے بجائے صرف زبان سے ان پر فخر کرنا، اس بیکراں نعمت کے سلسلے میں انسانی معاشروں کا غلط رویہ رہا ہے اور تفرقہ، پسماندگی اور دوسری متعدد علمی و عملی کمزوریاں، بعثت کے سلسلے میں اس روئے کا نتیجہ ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں انسانی معاشرے کے سب سے بڑے تمدن کی تشکیل کو قرآن مجید کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل آوری کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ آج بھی اگر بعثت اور قرآن کی بے نظیر صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں ختم ہو جائيں گي اور اس کی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو جائے گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کو امت اسلامی کی اہم کمزوریوں اور زخموں میں سے ایک بتایا اور کہا: ایک ملک اور ایک قوم، عالم اسلامی کی نظروں کے سامنے ایک وحشی، خبیث اور شر پسند حکومت کے بے انتہا اور روزانہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے اور اسلامی حکومتیں اتنی دولت و ثروت، صلاحیت اور توانائي کے باوجود صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس خونخوار حکومت سے تعاون بھی کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ملکوں کی کمزوری، صیہونیوں سے تعاون اور ان کے جرائم پر خاموشی کا نتیجہ ہے اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئي ہے کہ امریکا، فرانس اور کچھ دوسرے ممالک، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے دعوے کے ساتھ، عالم اسلام میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں جبکہ وہ خود ہی اپنے ملکوں کو چلانے اور اپنے ملکوں کے مسائل کو حل کرنے میں لاچار اور ناتواں ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ اگر پہلے ہی دن اسلامی ملکوں نے نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہوں کی بات مانی ہوتی اور غاصب حکومت کے سامنے مضبوطی سے ڈٹ گئے ہوتے تو آج قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کی صورتحال دوسری ہوتی اور اسلامی امت زیادہ متحد اور مختلف پہلوؤں سے زیادہ طاقتور ہوتی۔
انہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے صریحی اور اعلانیہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظام کو کسی سے تکلف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھلی حمایت کے ساتھ ہی جس طرح سے بھی ممکن ہو اس کی مدد کرے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے سبب دشمنوں کی طرف سے ایرانوفوبیا پر توجہ مرکوز کیے جانے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وہ حکومتیں بھی، جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی فلسطینی قوم کی مدد کریں، ایرانوفوبیا پھیلا کر اسلام کے دشمن کی آواز سے آواز ملا رہی ہیں۔ انھوں نے مسلم اقوام کے بعثت کی تعلیمات، اتحاد اور ہمدلی کی جانب واپس لوٹنے اور مسلم حکومتوں کی جانب سے دکھاوے نہیں بلکہ حقیقی تعاون کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا حل بتایا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایک بار پھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ خطرناک زلزلے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے، جس میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، کہا کہ فلسطین اور امریکا کی مداخلت جیسے سیاسی مسائل کی اہمیت پر ہر حالت میں توجہ دی جانی چاہیے اور امت مسلمہ کو اس پر نظر رکھنی چاہیے۔
اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بعثت نبوی کا فلسفہ، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر انسانوں اور انسانی معاشرے کی تعمیر ہے، کہا کہ اسلامی انقلاب کے بعد دشمنوں نے، اسلام کے ابتدائي دور کی طرح ہماری قوم کے سامنے فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی جنگ کے ذریعے صف آرائي کی لیکن ایران کے عوام نے مثالی استقامت کے ذریعے سامراجیوں کی ہر طرح کی سازش کو ناکام بنا دیا۔