یہ بات آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج بروز جمعرات حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ذاکرین ، شعراء اور مداحوں کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے کہی۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ دنیا میں عظیم اور بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان حالیہ واقعات میں دشمن کا منصوبہ ایک جامع منصوبہ تھا لیکن دشمن کا حساب کتاب غلط تھا۔
دشمن کا منصوبہ خراب نہیں تھا لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا دشمن کا حساب غلط تھا۔ دشمن کا منصوبہ خراب نہیں تھا لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلیے دشمن کا حساب کتاب غلط تھا۔
اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ اہلبیت کی مدح کرنا، شیعوں کا ورثہ اور متعدد پہلوؤں والا ایک ہنر ہے جو خوش الحانی، اچھے اشعار، مناسب آہنگ اور اعلی مضامین سے وجود میں آتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تمام گرانقدر دینی ارکان کی طرح اس کے بھی سبھی اجزاء خوبصورت ہونے چاہیے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے معاشرے کی فکری بالیدگي کو شاعر، ذاکر اور مدح خواں کا ایک اہم فریضہ بتایا اور کہا کہ اس میں معرفت کی تعلیم کے ساتھ ہی جذبات کو بھی ابھارنا ہوتا ہے البتہ بغیر غوروفکر کے جذبات، فائدہ مند نہیں ہیں لیکن شیعہ متون میں معرفت کی تعلیم کی بے نظیر خصوصیت یہ ہے کہ یہ جذبات کے ساتھ ہی سامع کی عرفانی گہرائيوں میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ذاکر اور مداح کی حیثیت سے آپ کہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو مداحی کے دلچسپ اور اہم کام کے ذریعے اسلامی انقلاب کی خدمت کرنی چاہیے یعنی طاغوت، ظالم، سامراج اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے ماحول کو فروغ دینا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ماحول سازی یا کلچر تیار کرنے کو ذاکروں اور مداحوں کا ایک دوسرا اہم کام بتایا اور کہاکہ دشمن کے مقابلے میں استقامت یا جوابی حملہ، علمی و سائنسی پیشرفت، گھرانہ اور افزائش نسل، بصیرت اور امید افزائي اور جوانوں کے ذہن میں دشمن کے مایوسی پھیلانے والے حربوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا، ثقافت سازی اور سامعین کی فکری و عملی ہدایت کے لیے ضروری چیزوں میں شامل ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں حالیہ واقعات میں دشمن کی سازشوں اور اس کے غلط اندازوں کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں دشمنوں کی سازش تو بھرپور تھی لیکن ان کا اندازہ غلط تھا، لہذا وہ شکست کھا گئے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ دشمن کسی بھی ملک کو ٹھپ کرنے اور اس کی تباہی کے لیے ضروری تمام وسائل ایران کے خلاف بروئے کار لائے، انہوں نے بعض عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معاشی عنصر موجود تھا کیونکہ ملک کی معاشی صورتحال اچھی نہیں تھی اور نہیں ہے، بنابریں لوگوں کے معاشی مسائل سے دشمن نے فائدہ اٹھایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اسی طرح سیکورٹی کے عناصر، جاسوسی ٹیموں کی دراندازی، پروپیگنڈے کے مختلف طریقوں اور حربوں سے دنیا میں سامراج کی جانب سے وسیع پیمانے پر ایرانوفوبیا کا پرچار، کچھ داخلی افراد کو اپنے ساتھ ملانا، قومیتی، مذہبی، سیاسی اور ذاتی محرکات کو بھڑکانا اور وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا، ہنگامہ پھیلانے کے دوسرے عناصر تھے لیکن دشمن اس کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ان کا اندازہ غلط تھا۔
انہوں نے دشمن کے غلط اندازوں کی کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ ایرانی قوم، اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے نظام کا تختہ پلٹنے اور ملک کا شیرازہ بکھیرنے کی دشمن کی سازش کا ساتھ دے گي۔ وہ سوچ رہے تھے کہ گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کر اور اہانت کر کے وہ ملک کے عہدیداروں کو پسپائي اختیار کرنے اور میدان سے ہٹ جانے پر مجبور کر دیں گے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ وسوسے ڈال کر اور ہنگامہ مچا کر ملک کے اعلی رتبہ عہدیداروں کے درمیان اختلاف پیدا کر دیں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ امریکا کے پٹھو فلاں ملک کے پیٹرو ڈالرز سے وہ اسلامی جمہوریہ کے عزم کو متاثر کر سکتے ہیں، وہ سوچ رہے تھے کہ کچھ ضمیر فروش افراد کو فلاں ملک میں پناہ کا لالچ دینے اور ایران کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کرنے سے ہمارے نوجوان مایوس ہو جائيں گے۔ یہ ان کی غلط فہمی تھی کیوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا عزم و ارادہ، ان کی طاقت کے تمام عناصر سے زیادہ مضبوط اور راسخ تھا۔
انہوں نے کہا کہ چالیس سال ہو گئے کہ وہ لوگ ہر ممکن طریقے سے اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چونکہ ان کے اندازے غلط تھے اور اب بھی ہیں، اس لیے اب تک انھیں شکست کا ہی منہ دیکھنا پڑا ہے اور مستقبل میں بھی وہ شکست کھاتے رہیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ملک میں مختلف طرح کی آراء اور نظریات پائے جاتے ہیں لیکن اسلام، نظام اور انقلاب کے بارے میں عوام کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بنابریں ہمیں اس اتفاق رائے اور وحدت کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے اور قومیتی و مذہبی اختلافات اور ایک گروہ کے خلاف دوسرے گروہ کے جذبات کو بھڑکانے میں مدد نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں اہم مضامین کی منتقلی کے لیے نغموں کو مداحی سے جوڑنے کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ انقلاب کی برکتیں، روز بروز ملک سے باہر بھی سامنے آتی جا رہی ہیں جس کا ایک نمونہ، 'سلام فرماندہ' نامی نغمے کا دیگر ملکوں تک پھیل جانا اور اسے مختلف زبانوں میں پیش کیا جانا تھا اور اس طرح کی چیزیں ملک کے استحکام میں معاون ہو سکتی ہیں۔
اس ملاقات کی ابتداء میں آٹھ شاعروں، ذاکروں اور مدح خوانوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں اشعار پیش کیے اور ان کی ثناخوانی کی۔