تہران۔ ارنا- سعودی عرب کی عدلیہ نے تیونس سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر جو اس ملک میں مقیم تھیں، کو لبنان کی مزاحمت کی حمایت پر 15 سال قید کی سزا سنائی۔

عرب زبان نبوز ایجنسی 21 نے تیونس سے تعلق رکھنے والے ایک شہری مطابق کہا ہے کہ سعودی عرب کی عدلیہ نے اس ملک میں مقیم ان کی بہن کو صرف ایک ٹوئٹر پیغام کیلئے 15 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

انہوں نے "جوہر ہ ایف ایم" سے گفتگو کرتے ہوئے کہ کہ میری 51 سالہ بہن کو"سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے نظام کی توہین اور حکومتی نظام  کیخلاف دشمنی" کے الزام میں قید کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق، ان کی بہن، جو 2008 سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، کو 25 جولائی 2020 کو "لبنان حزب اللہ" کی حمایت میں ٹوئٹر پر پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس تیونسی شہری نے اپنی بہن کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کچھ دوستوں نے میرے گھروالوں سے فون کیا ہے اور انہوں نے میری بہن کی گرفتاری کی خبر کی تصدیق کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے پوچھ گچھ ایک سال تک جاری تھی۔

تیونس کے اس شہری نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے اہل خانہ نے ریاض میں تیونس کے قونصل خانے سے کئی بار اس کیس میں داخل ہونے کے لیے رابطہ کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور انہوں نے تیونس کے صدر اور وزارت خارجہ سے اس معاملے میں داخل ہونے کا مطالبہ کیا۔

اس رپورٹ کی بنیاد پر تیونس کے حکام نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔

سعودی عرب میں مقیم امریکی شہری کو ٹوئٹر پر سرگرمی کیلئے 16 سال قید کی سزا سنائی گئی

خبر رساں ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب میں امریکی شہریت کے حامل ایک سعودی شہری کو اس ملک کے حکمران طبقے کے خلاف تنقیدی ٹویٹس شائع کرنے پر 16 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اخبار نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے امریکہ اور سعودی شہریت رکھنے والے "سعد ابراہیم الماضی" کو امریکہ میں قیام کے دوران، سعودی عرب میں حکمران طبقے پر تنقید کرنے والی ٹویٹس شائع کرنے پر 16 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اسی رپورٹ کے مطابق، الماضی کو نومبر مہینے میں اپنے گھروالوں سے ملاقات کیلئے دورہ ریاض آنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق الماضی کو گزشتہ سات سالوں میں ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شائع ہونے والی 14 ٹویٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی ٹویٹس میں سے ایک سعودی صحافی جمال خاشقجی کا حوالہ دیتی ہے، جسے 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں اپنے ملک کے قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے سعودی عرب کی حکومت کی پالیسیوں اور اس ملک کے حکمران طبقے میں کرپشن پر تنقید کرتے ہوئے دیگر ٹویٹس شائع کی ہیں۔

اس رپورٹ میں سعد الماضی کے بیٹے "ابراہیم" کے مطابق کہا گیا ہے کہ میرے والد سعودی حکومت کے بارے میں اعتدال پسند خیالات رکھتے تھے اور انہیں ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سعودی عرب کی حکومت نے ان کے والد کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا۔

سعد ابراہیم الماضی کیخلاف "دہشت گردی" کا نظریہ، سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش اور "دہشت گردی" کی حمایت اور مالی معاونت جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu