تہران۔ ارنا- ایرانی صدر نے کہا ہے کہ آج کی دنیا کو بین الاقوامی اداکاروں کے تعاون اور علاقائی اور عالمی مسائل کے پرامن حل کیلئے مزید مواقع پیدا کرنے کیلئے کسی بھی وقت سے زیادہ علاقائی میکنزیم کے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران، انصاف پر مبنی کثیر الجہتی کی مسلسل تقویت کی پیروی میں ایک پُرعزم شراکت دار رہے گا۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر سید " ابراہیم رئیسی" نے آج بروز جمعرات کو قازقستان کے شہر آستانہ میں منعقدہ سیکا کے چھٹے سربراہی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سیکا کے رکن ممالک، اپنے گہرے تہذیبی پس منظر پر انحصار کرتے ہوئے، امن و سلامتی کی توسیع کے لیے سفارتکاری اور انصاف اور روحانیت پر مبنی کثیر الجہتی تعاون کی بنیاد پر موجودہ طریقوں کو مضبوط کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی نظام میں تبدیلی کا عمل ایک خاص مرحلے پر پہنچ چکا ہے اور طاقت کی نئی تقسیم میں تسلط پسندانہ روش کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور آزاد ممالک کی آواز اور کردار کو زیادہ سنا اور دیکھا جاتا ہے۔

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ  اس تبدیلی اور منتقلی کو رہنمائی اور سمت کی ضرورت ہے تاکہ سابقہ ​​بین الاقوامی نظاموں کے سرانجام کا شکار نہ ہو۔

ایرانی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ  ثقافتی اور روحانی سرمایہ جو قدیم براعظم ایشیا کی مشترکہ اقدار کی تشکیل کرتا ہے، نظم و ضبط اور ایک ایسی دنیا کی ضمانت دیتا ہے جو ظلم، ناانصافی اور یکطرفہ پسندی کو مسترد کرتی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہے؛ اس عمل کی کامیابی کو یقینی بنانے میں کلیدی عنصر آزاد ممالک کا تعاون اور ہم آہنگی ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا تہذیبی اور ثقافتی اثاثوں سے مالامال بڑا کارنامہ ہے اور اس نے اپنی خارجہ پالیسی کو عدل، روحانیت، عقلیت، اخلاقیات، آزادی اور خودمختاری کے الہی-انسانی تصورات کی بنیاد پر بنایا ہے، جو مجموعی طور پر قوموں کی فلاح اور وقار کی ضمانت دیتا ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ جس کے مظاہر دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ، انتہا پسندی کی روک تھا، افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی مسلسل امداد، فلسطین سے یمن تک مظلوم اقوام کا دفاع، عراق اور شام سمیت ممالک کی قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت، مشکل وقت میں تمام پڑسیوں کی حمایت اور یکطرفہ پن کا مقابلہ کرنے میں دیکھے جا سکتے ہیں؛ اقتدار کا یہ راستہ ہمیشہ مرکزی شاہراہ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے جو کہ ایران کی ہمہ گیر ترقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے آپ کو اس راستے پر کاربند سمجھتا ہے اور تعاون اور باہمی احترام پر مبنی منصفانہ نظم کے حصول کے لیے پڑوسی ممالک سے تعاون کی پالیسی، کثیرالجہتی اور پائیدار ہم آہنگی پر زور دیتا ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اس سلسلے میں، خاص طور پر جغرافیائی سیاست، توانائی، نقل و حمل اور باصلاحیت افرادی قوت کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، علاقائی تنظیموں کی تشکیل اور مضبوطی کے ساتھ ساتھ اقتدار کی اجارہ داری اور یکطرفہ پالیسیوں کی مخالفت میں ایک فعال اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ  سلامتی اور تعاون ایک دوسرے کی مکمل کر دیتے ہیں، جو باہمی طور پر قومی خوشحالی اور علاقائی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران باہمی تعاون کے ذریعے آزاد ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ پر یقین رکھتا ہے اور بین الاقوامی حالات سے قطع نظر اس حکمت عملی کو جاری رکھے گا۔

ایرانی صدر نے کہا کہ اس کے مقابلے میں یکطرفہ پن، ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے اور ان کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور آزاد قوموں کے اتحاد کے عمل کو مایوس کرنا چاہتا ہے۔ لہذا؛ ایشیا میں ہم آہنگی اور سلامتی تسلط پسند ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہے اور آزاد قوموں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوئی بھی کوشش قومی جغرافیہ سے بالاتر مقاصد اور نتائج کا تعاقب کرتی ہے اور درحقیقت خطے کے ممالک کے استحکام اور خوشحالی کو نشانہ بناتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی قوم  جس نے آزادی اور ترقی کا راستہ اختیار کیا ہے اسے طاقتوروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی واضح مثال اسلامی انقلاب سے پہلے کے دور میں بھی بغاوت اور پابندیاں تھیں۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی غنڈوں کی مرضی یہ ہے کہ وہ ایرانی قوم کی مرضی کے خلاف کھڑے ہوں اور اس کے حقوق اور مفادات کو چیلنج کریں۔ اس سارے عرصے میں ایرانی قوم کو ہمیشہ جنگ، پابندیوں، دہشت گردی، بغاوت کی کوششوں، یورپ اور امریکہ کی طرف سے صدام کو کیمیائی ہتھیاروں سے ایرانی شہریوں کے قتل عام کیلئے مسلح کرنے اور آخرکار معاہدے کو توڑنے اور عہد کی خلاف ورزی جیسے مختلف خطرات کا سامنا رہا ہے؛ ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ ایرانی قوم کی آزادی اور خوشحالی کا راستہ "کثیر الجہتی  طاقت" کے ذریعے ممکن ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ ایرانی قوم نے امریکی فوجی آپشن کو باطل کر دیا ہے اور جیسا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے، پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا ہے۔ اب، عسکریت پسندی اور پابندیوں میں امریکہ کی ناکامی کے بعد، واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں نے عدم استحکام کی ناکام پالیسی کا سہارا لیا ہے۔ جس بات نے ایرانی قوم کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور حکمرانوں کو خوفزدہ کیا ہے وہ ایرانی قوم کی اپنی "اندرونی طاقت" کی بنیاد پر ترقی کی طرف توجہ ہے؛ اس لیے بیک وقت سیکیورٹی اور پیشرفت فراہم کرنے کے عمل میں، ترجیح "اینڈوجینس پاور" اور اس کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی ضروت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایشیا ابھرتی ہوئی عالمی تبدیلیوں کے مرکز میں ہے، اس وسیع علاقے میں امن کو برقرار رکھنا اور اسے مضبوط بنانا کوئی انتخاب نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ سیکا اور اس کی حکمرانی کی روح، یعنی باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات، مساوات، مشترکہ مشاورت، ثقافتی تنوع کا احترام، سب کے لیے سلامتی اور مشترکہ ترقی کے احساس کی ضرورت پر زور، ایک مؤثر طریقہ کار ہے جس کا مقصد امن اور سلامتی کو حاصل کرنا اور مضبوط کرنا ہے جو امن و سلامتی کو محسوس کرنے اور اسے مضبوط بنانے اور ایشیائی ممالک کے لیے پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں ایک ناقابل تلافی کردار ادا کرے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی یاد رہے گا۔

صد رئیسی نے کہا کہ اس دوران، یہ واضح ہونا ہوگا کہ فطری طور پر، وہ ممالک جو خود دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں، ان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اصول و ضوابط کی وضاحت نہیں کرنی ہوگی۔ وہ غنڈے جنہوں نے عالمی مالیاتی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے اور قوموں کی دولت لوٹنے میں مصروف ہیں وہ ابھرتے ہوئے نظام کی تشکیل میں قابل اعتماد شراکت دار نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ بھرتی ہوئی دنیا میں نئے ایشیا کو سیکورٹی، اقتصادی، میڈیا اور سائبر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے آزاد ممالک کے لیے ایک اینڈوجینس ماڈل ڈیزائن کرنے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ ایک مشترکہ مالیاتی نظام بنانے اور علاقائی کرنسیوں کے استعمال، دہشت گردی سے لڑنے کے لیے اصول و ضوابط وضع کرنے اور میڈیا تعاون کو مضبوط بنانے میں خاص طور پر اہم ہے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ امریکہ اور صہیونی ریاست نے فلسطین، شام، عراق، یمن اور افغانستان میں جارحیت، قبضے، نسل پرستی، بچوں اور عام شہریوں کی عصمت دری اور قتل کے ذریعے خطے میں عدم تحفظ، تشدد، دہشت گردی، جنگ اور اضطراب کو ہوا دی ہے۔ اب قبضے کے خاتمے اور قوموں کو اپنی تقدیر خود طے کرنے کے حق کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کے شیطانی چکر سے گزرنے کے لیے سنجیدہ عزم اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس کا مقصد اس ملک کے تمام نسلی اور مذہبی گروہوں کی شمولیت سے ایک جامع حکومت تشکیل دینا اور بین الاقوامی وعدوں بالخصوص پڑوسیوں کے ساتھ دوطرفہ وعدوں پر عمل درآمد کرنا ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ دوسری جانب تکفیری دہشت گردوں کی فیصلہ کن شکست اور شام میں ان کی حکمرانی کا خاتمہ مشرق کی جانب ان کی بامقصد ہجرت کا باعث بنا ہے جس سے وسطی ایشیا سمیت مختلف خطوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ جس طرح کسی بھی خطے میں دہشت گردی کا پھیلاؤ اس خطے کی سلامتی کے خلاف ہے، اسی طرح نیٹو کی کسی بھی آڑ میں توسیع خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی شکل میں دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور اس کا مقابلہ کرتا ہے، بشمول اقتصادی دہشت گردی جو آزاد ممالک کی اقتصادی ترقی کو روکنا چاہتی ہے۔ اقتصادی دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے جس کے لیے مسلسل تعاون اور اجتماعی ردعمل کی ضرورت ہے۔

ایرانی صدر نے کہا ہے کہ آج کی دنیا کو بین الاقوامی اداکاروں کے تعاون اور علاقائی اور عالمی مسائل کے پرامن حل کیلئے مزید مواقع پیدا کرنے کیلئے کسی بھی وقت سے زیادہ علاقائی میکنزیم کے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران، انصاف پر مبنی کثیر الجہتی کی مسلسل تقویت کی پیروی میں ایک پُرعزم شراکت دار رہے گا۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu