تہران، ارنا - امریکی ریاست نیو میکسیکو میں قتل کے متعدد واقعات نے اس ملک کی مسلم کمیونٹی میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور جمہوریت اور انسانی حقوق کو اس ملک میں چیلنج کا شکار کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز اخبار نے اس حوالے سے لکھا کہ امریکی ریاست نیو میکسیکو کے سب سے بڑے شہر البوکرک میں 4 افراد کے قتل نے مسلم کمیونٹی کو خوفزدہ کردیا ہے۔ پولیس نے عوام سے تحقیقات میں مدد کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اور یہ کام خود مسلمانوں کے خوف کا باعث بنا ہے۔

اس اخبار نے مزید کہا کہ البوکرک میں رہنے والے امریکی شہری 'محمد امتیاز حسین' گھر سے باہر پودوں کو پانی دینے یا گاڑی سے کتابیں لینے اور گھر کی بالکونی تک جانے سے بھی ڈرتا ہے۔

ان کا 27 سالہ بھائی محمد افضل حسین کو بھی ایک ہفتے پہلے اپنے اپارٹمنٹ کے قریب گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔

وہ ان چار مسلمان مردوں میں سے ایک تھا جنہیں حالیہ دنوں میں اس شہر میں قتل کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو ہفتوں میں تین افراد بھی مارے گئے اور پولیس حکام کا خیال ہے کہ ان اموات کے درمیان رابطہ ہے اور وہ مسلم برادری کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چوتھا شکار، جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والا 20 سالہ مسلمان شخص، جس کا نام پولیس نےاعلان نہیں کیا، جمعہ کی رات سے مارا گیا۔

امریکی وفاقی پولیس اور ریاستی پولیس نے البوکرک پولیس کی طرح بھی قاتل یا ممکنہ قاتلوں کی تلاش میں عوام سے مدد مانگی ہے۔

نیو میکسیکو کے اسلامک سینٹر کے ایک مسلم رکن جو چاروں متاثرین کو جانتے تھے، نے پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے وہ بھی شکار ہوجائے۔

نیو میکسیکو کے اسلامک سینٹر کےسربراہ احمد عاصد نے کہ وہ البوکرک میں جنم لیا ہے اور ہمیشہ اس اسلامی مرکز کیلیے کام کیا ہے لیکن ہرگز اب تک ایک مسلم کی حیثیت سے اس شہر میں اس قدر تنہائی کو محسوس نہیں کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے میں تین افراد کو قتل کیا گیا ہے اور ریاستی حکام کے کہنے کے مطابق ان تمام اموات اور متاثرین کی مشترکہ وجہ نسل اور مذہب تھے۔      

کیلیفورنیا کی یونیورسٹی برایان لوین نے کہا کہ نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد 2020 میں امریکہ میں نفرت سے پیدا ہونے والے جرائم  دوسرے سالوں کے مقابلے میں کم ہوگئے ہیں ۔ جس کی وجہ کورونا کی وبا سے متعلق پابندیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نفرت پر مبنی جرائم بدستور ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔

اس کے کہنے کے مطابق 2021 میں نفرت سے پیدا ہونے والے جرائم میں 20 فیصد سے زیادہ اور 2022 کی پہلی ششماہی میں4.7فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس امریکی پروفیسر نے اس ملک میں "اسلام مخالف خیالات" بہت پائے جاتے ہیں اور جب ملک مشکل حالات میں ہوئے تو یہ بدتر بھی ہو جاتے ہیں۔

نیو میکسیکو کے اسلامک سینٹر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایک خاتون نے ایک مسجد پرآگ لگایا۔ پولیس نے اس خاتون کو گرفتار کر کے اس پر جان بوجھ کرآتش زنی کا الزام لگایا اور اس کا کیس ابھی زیر تفتیش ہے، اس واقعے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔

نیو میکسیکو کے اسلامک سینٹر کےسربراہ احمد عاصد نے اس مرکز کے تقریباً 2500 م ممبرز کو حکم دیا کہ وہ گھر پر باقی رہیں اور اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے سے گریز کریں۔

الجزیرہ نیوز چینل نے امریکہ میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں بھی کہا کہ یہ قتل عام ملک بھر کے مسلم عوام جنہیں نسل پرستی، امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے، کے لیے خوف اور تشویش کا باعث بن گئے ہیں ۔

اس میڈیا نے "اگلا شخص کون ہے؟" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں امریکی مسلم کمیونٹی میں خوف و ہراس کا حوالہ دیا ہے۔

این بی سی نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ شریف ہادی" نے 1980 کی دہائی میں افغانستان کو چھوڑا اور محفوظ زندگی گزارنے کے لیے امریکہ میں سکونت اختیار کی۔ لیکن پچھلے چند مہینوں میں چار مسلم افراد بشمول ان کے بھائی محمد ظاہر احمدی ، کے قتل کے بعد - محفوظ امریکہ کے حوالے سے شریف ہادی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی رپورٹ کی ہے کہ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، ان قتلوں سے پیدا ہونے والا خوف اور تشویش ریاست نیو میکسیکو سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ نیو میکسیکو کی 2.1 ملین آبادی سے 1 فیصد سے بھی کم مسلم ہیں۔

اس میڈیا کے مطابق نیویارک میں مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں میں سے ایک 'دبی آلمونتاسر((Debbie Almontaser) نے ٹویٹر میں کہا کہ یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ مشتبہ شخص آزاد ہے، سوال یہ ہے کہ "اگلا فرد کون ہے"؟!

11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ جرائم صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہیں اور کورونا کی وبا کے بعد ہونے والے واقعات میں ایشیائی باشندوں کے خلاف بھی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

نیویارک پولیس کے مطابق 2019 میں اس شہر میں ایشیائی - امریکی شہریوں کے خلاف جرائم کی تعداد صرف تین تھی اورکورونا کو ’چینی وائرس‘ قرار دینے کے لیے سابق امریکی صدر کے دعوے کے بعد یہ جرائم کی تعداد 2020 میں بڑھ کر 29 جرائم تک پہنچ گئی ۔

 الجزیرہ چینل نے اسلامو فوبیا اور امتیازی سلوک جس نے امریکہ میں جمہوریت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، کے بارے میں لکھا کہ 11 ستمبر کے حملوں کے دو دہائیوں بعد، امریکی مسلمانوں کو بڑی تعداد میں امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہیں  اور 2002 سے 2014 تک نیویارک پولیس نے شہر کی مسلم آبادی کی جاسوسی کے لیے ایک مکمل اپارٹمنٹ کو مختص کردیا۔

امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے مطابق، پولیس نے نیویارک کے مسلمان لوگوں کی جگہ کا تعین کیا ہے اور مسلم کمیونٹی کے اندر میں جاسوسی کرنے کے ساتھ ساتھ مساجد کی نگرانی کی ہے۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu