تہران – ارنا – اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں عمان میں ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے نئے دور کے حوالے سے ایران کا موقف صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ارنا کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لکھا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں ایران اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے درمیان خطوط اور پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ " بعض سطحی تحلیل و تجزیئے کے برخلاف،یہ سلسلہ، کم سے کم ہماری طرف سے، نہ علامتی ہے اورنہ ہی رسمی، بلکہ ہم اس کو موقف کے حوالے سے شفاف سازی اور سفارتکاری کی کھڑکیاں کھولنے کی حقیقی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں۔"

وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے لکھا ہے کہ "صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیر کے بیان کے پیش نظر، ایران ایک سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے، سنجیدگی کے ساتھ گفتگو شروع کرنا چاہتا ہے۔ ہم آئندہ سنیچر کو بالواسطہ مذاکرات کے لئے، عمان میں ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات جس حدتک  ایک موقع ہے اسی حد تک ایک آزمائش بھی ہے۔"

 ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ " اس افہام و تفہیم کے لئے جس ماڈل کی تجویز ہم پیش کررہے ہیں، وہ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہ ہو۔ اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکا،روس اور یوکرین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات میں ثالثی کررہا ہے۔ یہ تنازعہ زیادہ شدید اور زیادہ پیچیدہ ہے جس کے اسٹریٹیجک، زمینی، فوجی ، سیکورٹی اور اقتصادی پہلو ہیں۔ "

انھوں نے لکھا ہے کہ " میں خود ذاتی طور پرریاستہائے متحدہ امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی قیادت کرچکا ہوں۔ یہ عمل جو 2021 میں یورپی یونین کی ثالثی میں انجام پایا، براہ راست مذاکرات سے زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھا، لیکن انجام پایا اور ثمربخش بھی رہا۔ اگرچہ اس وقت ہم اختتام تک نہ پہنچ سکے، لیکن اس کی اصل وجہ، جو بائیڈن کی حکومت میں اس حوالے سے حقیقی ارادے کا فقدان تھا۔"

 سید عباس عراقچی نے لکھا ہے کہ " بالواسطہ مذاکرات کی پریکٹس نہ کوئی ٹیکٹکس ہے اور نہ ہی کسی آئيڈیالوجیکل رجحان کا عکاس، بلکہ ایک اسٹریٹیجک انتخاب ہے جو تجربے کی بنیاد پر اختیارکیا گیا ہے۔ "

 انھوں نے لکھا ہے کہ " ہمارے درمیان بےاعتمادی کی ایک بڑی دیوار حائل ہے اور نیتوں کی صداقت پر ہمیں کافی شک ہے اور ہر قسم کا سفارتی معاملہ شروع کرنے سے پہلے، حد اکثر دباؤ کی پالیسی پر ریاستہائے متحدہ امریکا کے اصرارنے ہمارا یہ شک بڑھا دیا ہے۔"

 ایران کے وزیر خارجہ نے لکھا ہے کہ آئندہ کی طرف بڑھنے سے پہلے، ہمارے لئے اس حقیقت کے مشترکہ ادراک تک پہنچنا ضروری ہے کہ اصولی طور پر "فوجی آپشن" نام کی کوئی چیز وجود نہيں رکھتی، چہ جائیکہ فوجی راہ حل۔ صدر ٹرمپ نے بھی یوکرین جنگ ختم کرانے کے لئے پہلے قدم کے عنوان سے جنگ بندی کی سفارش کرکے، واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ "  

 انھوں نے لکھا ہے کہ " واشنگٹن ميں بہت سے لوگ اقتصادی نقطہ نگاہ سے ایران کو ایک بند ملک سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے دروازے، بین الاقوامی تجار اور کمپنیوں کی فعالیت کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔  یہ محدودیتیں، ایران کی جانب سے نہیں بلکہ امریکی حکومتوں کی جانب سے ہیں اور امریکی کانگریس کی طرف سے رکاوٹیں مسلط کی گئی ہیں جو امریکی کمپنیوں کو ایران کی منڈی میں قدم رکھنے سے روکتی ہیں جبکہ ایرانی منڈیوں میں اربوں ڈالر کے امکانات اور مواقع موجود ہیں۔"  

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے آخر  میں لکھا ہے کہ " میری یہ بات یاد رکھیں کہ ایران سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے، لیکن اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح اپنا دفاع کرے۔ ہم نہ ماضی میں دھمکیوں سے جھکے ہیں، نہ اب اور نہ ہی آئندہ جھکیں گے۔  ہم امن چاہتے ہیں لیکن جھکنا ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ "