انہوں نے اپنے عوامی خطاب کے دوران ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایران کے دشمنوں نے انقلاب کے ابتدائی دنوں سے ہمارے خلاف سازش، جنگ، بغاوت اور دشمنی کے راستے کا انتخاب کیا اور آج بھی جو لوگ خود قتل عام میں ملوث اور ہمارے 18 ہزار شہریوں کو شہید کرچکے ہیں، ہم پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
صدر پزشکیان نے کہا کہ امریکی صدر نے اپنے تازہ لائحہ عمل میں ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے علاقے میں بدامنی کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹہرایا ہے حالانکہ ان لوگوں نے ہمارے نوجوانوں، سائنسدانوں، عہدے داروں، صدر اور ائمہ جمعہ کا قتل کیا اور پھر ہم پر دہشت گرد ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ الزامات وہ حکومت ہم پر عائد کر رہی ہے جس نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرکے بمباری اور قتل عام کا راستہ ہموار کیا اور اب ان کا دعوی ہے کہ وہ علاقے میں سلامتی کے خواہاں ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ ان لوگوں نے اسماعیل ہنیہ کو جو ہمارے مہمان تھے، صدارتی حلف برداری کے موقع پر قتل کیا۔ غزہ میں 50 ہزار سے زیادہ بے گناہ انسانوں کو شہید کیا اور پھر ایران کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔
صدر پزشکیان نے کہا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہتھیار، میزائل اور دیگر دفاعی وسائل نہ ہوں تا کہ ہمیں بھی غزہ کی طرح بمباری کا نشانہ بنا سکیں۔
انہوں نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ یہ شخص مائکروفون پر مذاکرات کی بات کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ایران کو محاصرے میں لینے اور تمام راستے بند کرنے کے احکامات پر جاری کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شخص اگر واقعی مذاکرات کی اہلیت رکھتا تو ایسی حرکت سے اجتناب کرتا۔
مسعود پزشکیان نے زور دیکر کہا کہ شہادت ہمارے عہدے داروں اور قائدین کے لیے شہد سے زیادہ شیرین ہے۔
صدر مملکت نے ایران اور ایرانیوں کو ڈرانے کی کوششوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ مین کہا کہ ایرانی عوام کسی بھی خطرے کے مقابلے میں نہ پیچھے ہٹنے والے ہیں نہ ہی دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے ہیں۔
صدر پزشکیان نے کہا کہ ایران ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور برادری بڑھا کر تمام طوفانوں سے سربلند نکلے گا۔