ارنا سے ایک گفتگو میں مسعود شجرہ نے کہا: یہ واقعہ بلاشبہ اسلامو فوبیا میں اضافے اور محمد (ص) کے خالص اسلام کی جگہ پر اس اسلام کو لانا ہے جو لبرل اور طاغوتی نظام سے ہم آہنگ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: مغرب مذہب کو سیاست، معیشت اور معاشرت سے الگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے نمازی اور خدا کے درمیان انفرادی تعلق تک محدود کر رہا ہے کہ جس کا سول سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ طرز فکر خالص اسلامی تعلیمات کے بر خلاف ہے۔
اسلامی انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ نے کہا: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغرب حقیقی اسلام کی طرف سے بہت زیادہ فکرمند ہوگیا کیونکہ اس نے پہلی بار سیاست کے میدان میں مذہب کے اہم کردار اور پوری دنیا پر تسلط کے اپنے سامراجی اہداف اور سازش کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی لئے وہ اسلام کی نئی شکل پیش کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ جس میں کچھ خاص اثر نہيں تھا اور وہ طاغوتی نظام کے ساتھ رہتا ہے اور اسی طرح کے اسلام کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے امریکی اسلام اور رہبر انقلاب اسلامی نے اسے برطانوی شیعہ کا نام دیا ہے۔
جرمنی میں اسلامی مراکز پر حملے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے خبردار کیا کہ مغرب خالص اسلام کی ترویج کرنے والی تنظیموں کو بند کرنے یا ان پر قدغن لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے جرمن پولیس نے بد ھ کو ہیمبرگ میں اسلامی مرکز کی عمارت پر حملہ کرکے اس کے اثاثوں کو ضبط اور اس مرکز کو بند کردیا۔ اس رپورٹ کے مطابق جرمن وزارت داخلہ نے دعوی کیا ہے کہ ہیمبرگ کا اسلامی مرکز بقول اس کے انتہا پسندانہ اسلامی اہداف کے لئے کام کرتا ہے۔
جرمن وزارت داخلہ نے اعلان کیان ہے کہ بدھ کو عدالت کے حکم پر جرمنی کے آٹھ صوبوں میں اسلامی مرکز کی عمارتوں کی تلاشی لی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ ہیمبرگ کے اسلامی مرکزی کی عمارت میں جرمنی کی قدیمی ترین مسجد بھی ہے جو اپنی فیروزی رنگ کی بیرونی عمارت کی وجہ سے کافی مشہور ہے ۔
جرمن حکومت نے ہیمبرگ کے اسلامی مرکز کے ساتھ ہی فرینکفرٹ، میونخ اور برلن کے اسلامی مراکز کو بھی بند کردیا ہے۔ جرمن حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں جرمنی میں شیعہ مسلمانوں کی چار مساجد بند ہوجائیں گی۔
جرمن حکومت نے ہیمبرگ کے اسلامی مرکز کو ایسی حالت میں بند کردیا ہے کہ اس مرکز نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر قسم کے تشدد اورانتہا پسندی کا مخالف اور آمن و آشتی نیز ادیان کے درمیان گفتگو اور مذاکرات کا حامی ہے۔