تہران (ارنا) وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر نے اعتراف کیا کہ ایران جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان حالیہ تنازع کے بعد ایران نے اس میدان میں نئے موقف اپنائے ہیں۔

IRNA کے مطابق، ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے "جیک سلیوان" کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "ہم  نے ایران کی طرف سے (جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی طرف) بڑھنے کا مشاہدہ نہیں کیا۔

سلیوان نے ایسپین سیکورٹی فورم میں صحافیوں کو بتایا، "اگر وہ اس سمت میں آگے بڑھنا شروع کر دیتے ہیں، تو انہیں امریکہ کے ساتھ ایک سنگین مسئلہ درپیش ہو گا۔"

سلیوان نے دعوی کیا کہ امریکہ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جوابی حملوں کے بعد سے " اس (جوہری ہتھیاروں کی تعمیر) بارے میں ایرانی حکام کے عوامی تبصروں میں اضافہ" دیکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بیانات نئے تھے اور ہماری توجہ اس جانب مبذول ہوئی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی اس سیکورٹی اجلاس میں کہا کہ واشنگٹن ایران کے جوہری مسئلے کے سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔

پچھلی امریکی انتظامیہ کے اقدامات اور جے سی پی او اے سے دستبرداری پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "جب سے جو بائیڈن انتظامیہ نے کام کرنا شروع کیا ہے، ہم ایران کے ساتھ دوبارہ جوہری ڈپلومیسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ کم از کم ایک مسئلہ کو دور کر دیا جائے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں۔" اور یہ بنیادی طور پر ایک اچھی چیز ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران نے جوہری ہتھیار تیار نہیں کیا ہے، امریکی وزیر خارجہ نے امریکہ کے سابقہ ​​دعووں کو دہراتے ہوئے کہا کہ پہلے ایران جوہری ہتھیاروں کی پیداواری صلاحیت سے کم از کم ایک سال دور تھا، مگر اب وہ ممکنہ طور پر ایسا کرنے سے ایک یا دو ہفتے کے فاصلے پر ہے۔

بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا لیکن پھر بھی اس کو روکنے کے لیے سفارتی طریقے کو ترجیح دیتا ہے۔