ارنا کے مطابق خیام 427 ہجری شمسی میں خراسان کبیر کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔
خیام کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں ، دانشوروں، حکما اور فلاسفروں میں ہوتا ہے اور انہیں ریاضی اور علم نجوم میں بھی مہارت حاصل تھی ۔
عمرخیام کی رباعیوں کا دنیا کی تقریبا سبھی زندہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم منجملہ،قرآن پڑھنا، عربی ، فارسی، ریاضی اور فقہی احکام کی تعلیم نیشا پور میں حاصل کی اس کے بعد خواجہ ابولحسن انباری سے ریاضیات اور ہندسہ کے بنیادی اصول سیکھے اور پھر حکمت، فلسفے، عرفان اور اخلاقی علوم نیز قرآن کریم کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مکتب امام موفق نیشابوری میں داخلہ لیا اور زیور علم ودانش اور اخلاقیات سے آراستہ ہوئے۔
خیام نے نوجوانی میں ہی فلسفے اور علوم ریاضی میں تبحر حاصل کرلیا اور مزید علوم حاصل کرنے کے لئے 461 ہجری میں نیشاپور سے سمر قند گئے ۔
وہ سمرقند سے اصفہان گئے جہاں اپنے اٹھارہ سا لہ قیام کے دوران ملک شاہ کے فرمان پر بننے والی رصد گاہ میں علم نجوم کی تحقیقات میں مصروف رہے۔
پھر جب ملک شاہ کے ورثا میں سلطنت کے لئے لڑائی شروع ہوئی اور علمی فروغ کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے تو خیام اصفہان سے خرسان روانہ ہوگئے اور اپنی عمر کے باقی ایام مرو سمیت خراسان کے اہم شہروں میں گزارے اور ان کے زیادہ تر علمی کارنامے اصفہان سے واپسی پرخراسان میں ہی انجام پائے ہیں۔
عمرخیام نیشاپوری کا فلسفہ ہمیشہ پرکشش رہا ہے ۔ وہ اپنے مشاہدات اور تحقیقات کا نچوڑ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قدرت ایزد متعال لامحدود ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہے جبکہ فہم بشر محدود ہے۔
خيام فيلسوف بزرگي است و فلسفه وي هيچوقت تازگي خود را از دست نخواهد داد، وي در نتيجه مشاهدات و تحقيقات خود به اين حقيقت دست مي يابد كه فهم بشر محدود است و قدرت ايزد متعال بي انتها.
خیام کا انتقال 1123 عیسوی میں نیشاپور میں ہوا اور وہیں سپردخاک کئے گئے ۔
نیشاپور میں خیام کی آخری آرامگاہ آج بھی سیاحوں اور علم دوست حلقوں کا مرکز ہے ۔
صوبہ خراسان رضوی کے محکمہ سیاحت و ثقافتی میراث کے ترجمان حسن پہلوان نے ارنا سے خصوصی گفتگو میں بتایا ہے کہ خیام کا مزارفردوسی کے مزار کے بعد اس صوبے کا دوسرا مرکز ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ سالانہ ہزاروں سیاح ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
17 مئی عالمی یوم ثقافتی ورثے کے ساتھ ہی عمرخیام کی یاد کا دن بھی قرار دیا گیا ہے۔