سید حسن نصراللہ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید محمد رضا زاہدی کی یاد تازہ کی اور کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کے ان کمانڈروں نے اپنی پوری زندگی استقامتی محاذ کی حمایت میں گزار دی۔
انہوں نے کہا کہ آج مسئلہ فلسطین کو پرفروغ رکھنا اور ملت فلسطین کے حق کی یاد دہانی، دنیا کے پہلے مطالبے میں تبدیل ہوچکا ہے جس کا نظارہ امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں میں بھرپور طریقے سے دیکھا جا رہا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ طوفان الاقصی سے قبل فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو پاؤں تلے روندا جا رہا تھا لیکن آج پوری دنیا اس حق پر زور دے رہی ہے۔
انہوں نے صیہونی حکومت کی اندرونی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تمام صیہونی حکام استقامتی محاذ سے شکست کھانے پر متفق ہیں اور جب نتن یاہو دعوی کرتے ہیں کہ ان کے اور جیت کے بیچ بس ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے تو ان کے ان دعووں کو صیہونی حلقوں میں مضحکہ خیز قرار دیا جاتا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکیوں کی طرف سے ہتھیاروں کی بلاقید و حدود ترسیل بھی صیہونیوں کی شکست کو روک نہ سکی۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ اب یہ نوبت آگئی ہے کہ صیہونی حکومت ہزاروں میل دور سے مارے گئے میزائلوں کے مقابلے میں اپنے جہازوں کی حفاظت تک نہیں کر پا رہی ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ صیہونی حکومت نے اس سے قبل اپنی ایک ناقابل شکست تصویر پیش کر رکھی تھی جسے ایران کے "وعدہ صادق" میزائلی اور ڈرون حملے نے چور چور کردیا اور اسی کے بعد تل ابیب کی فوجی قیادت بری طرح بحران اور تشویش کا شکار ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی اعلی قیادت اب تعطل کا شکار ہے اور غزہ پر جارحیت کے بعد کی صورتحال کے بارے میں ان کا کوئی پلان نہیں ہے، اسی لئے وہ خود کو کامیاب ظاہر کرکے اور اپنی اس شکست کی پردہ پوشی کرنے کے لئے رفح شہر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دشمن کے پاس اب بس دو راستے رہ گئے ہیں، یا تو ثالثوں کی تجاویز پر عمل کریں جو کہ شکست کے مترادف ہے یا پھر جنگ جاری رکھیں جس سے ان کے طاقت اور اثاثے بتدریج تباہ ہوجائیں گے۔