شیخ ابراہیم زکزاکی نے ہفتے کی رات تہران یونیورسٹی میں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دریافت کرتے وقت اپنی 50 سالہ علمی و سماجی جد و جہد کا ذکر کیا اور کہا کہ مجھے معروف ہونے اور شہرت میں کوئي دلچسپی نہيں تھی۔
انہوں نے بتایا: سن 1976 میں نائیجیریا کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد میری رائے بدل گئی اور میں نے یونیورسٹی میں ایک ریڈر کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن سن 1979 میں جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ پیرس سے ایران لوٹے تو ایک بار پھر میرا نظریہ بدل گیا۔
انہوں نے کہا : اس وقت میڈیا کمزور تھا لیکن پھر بھی اسلامی انقلاب کی تصویریں نظر آ جاتی تھیں اور مجھ پر انقلاب کا بہت اثر ہوا، انقلاب کا اثر کمیونسٹوں پر بھی ہو رہا تھا۔
میرے لئے یہ قابل فخر بات ہے کہ میں نے سن 1980 میں انقلاب کی کامیابی کی پہلی سالگرہ پر ایران کا سفر کیا اور جب واپس اپنے ملک گیا تو وہاں طلبہ اور عوام میں ایران کے انقلاب کے بارے میں جاننے کا بہت زیادہ اشتیاق نظر آیا۔ میری جد و جہد کا آغاز ہو چکا تھا جس کے ایک سال کے بعد مجھے قید کر لیا گیا اور 6 مہینے بعد رہائي ملی اور پھر کافی دنوں کے لئے مجھے دوبارہ قید کر لیا گیا۔
انہوں نے کہا : اس وقت ایران اور امریکہ دو سپر پاور ہيں اور ایران اس وقت ایک طاقت اور ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، امریکہ کی طاقت کم ہو رہی ہے اور ایران کی بڑھ رہی ہے اس لئے جلد ہی ایران دینا کا واحد سپر پاور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک میرے بار ے میں بہت سے لوگوں نے بہت کچھ کہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ خداوند عالم کا لطف ہے اور یہ سب امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت کا اثر ہے۔
واضح رہے کہ ہفتے کی رات تہران یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران شيخ ابراہیم زکزاکی کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئي۔
اس موقع پر ایران کے تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے اعلی حکام بھی موجود تھے۔
نائیجیریا کے شیعہ مسلمانوں کے رہنما شیخ ابراہیم زکزاکی گزشتہ بدھ کو تہران پہنچے ہيں جہاں ہوائی اڈے پر ان کا زبردست استقبال کیا گيا۔