یہ بات کمال خرازی نے پیر کے روز تہران کے تیسرے ڈائیلاگ فورم کی افتتاحی تقریب مین خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے بتایا کہ ایران اپنے جوہری وعدوں پر واپس آنے کے لیے تیار ہے اور اب تک بہت سے مسائل حل ہو چکے ہیں اور صرف سیف گارڈ کا مسئلہ باقی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ماہرین کے دورے کے دوران یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ نشست حقیقت کے دیکھنے اور مشرق وسطی کے علاقے کے مسائل کے بارے میں گفتگو کا باعث بنے گی۔ تہران پہنچنے سے پہلے آپ کے ذہن میں تہران کے بارے میں کچھ اور تصورات تھے اور سمجھتے تھے کہ تہران جنگ، فسادات اور تنازعہ کا میدان ہے اور اس تصور کی وجہ وہ خبریں ہے جو مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ایران کے خلاف پیدا کی ہے۔
کمال خرازی نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اور سوشل نیٹ ورکس کے زیر اثر ان خبروں کے علاوہ، اجنبیوں نے سرحدی راستوں سے ایران میں ہتھیار لانے، بیرون ملک دہشت گرد قوتوں کو منظم کرکے اور ایران میں درآمد کرکے ملک میں فسادات اور انتشار پھیلایا۔
خرازی نے کہا کہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے اور ایرانیوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ احتجاج بدامنی سے مختلف ہے اور کوئی بھی حکومت اپنے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گی بلکہ طاقت کے ساتھ بدامنی کو بھی روکے گی۔ یورپ اور امریکہ میں فسادیوں سے نمٹنے کا راستہ بالکل واضح ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر نے بتایا کہ ایران کے خلاف ہائبرڈ جنگ کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور محترمہ امینی کی موت بدامنی کی چنگاری تھی جس موت نے انہیں یہ بہانہ دے دیا۔