وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے مضمون کا آغاز سورہ احزاب کی 23ویں آیت کے ساتھ کیا:
«مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا»
عالم اسلام اور دنیا کے تمام حریت پسند، غم و اندوہ کے ماحول میں سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین کے پاک جسموں کو اپنے شانوں پر اٹھائیں گے۔
یہ تشییع صرف دو عظیم الشان کمانڈروں کو الوداع کہنا نہیں بلکہ ان کے راستے، ان کی فکر اور ان کے اقدار کے ساتھ تجدید عہد کرنے کے مترادف ہے۔ وہ کمانڈر جنہوں نے استقامت کی راہ میں اپنی جان نچھاور کردی۔
لبنان اور عالم اسلام کی شاہراہیں اس وقت عوام کے ٹھاٹے مارتے سمندر کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ آنکھیں اشکبار لیکن ارادے مضبوط ہیں۔
مسلم امہ ان دو قائدین کی شہادت کو اس راہ کا خاتمہ نہیں بلکہ ظلم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف، جنگ جاری رکھنے کا ایک نیا سنگ میل قرار دے رہی ہیں۔
ان دو رہبروں کے جسم کو تو سپرد خاک کردیا جائے گا لیکن ان کے اقدار و افکار بدستور زندہ ہیں اور اس راہ یعنی استقامت کی راہ کو دسیوں لاکھ حریت پسند انسان روشن رکھیں گے۔
نصراللہ؛ وہ رہبر جنہوں نے توازن کو تبدیل کردیا
اس دور میں جب عرب اور عالم اسلام کے بہت سے لیڈروں نے بیرونی دباؤ کے سامنے گردن جھکا لی تھی، سید حسن نصراللہ نے طاقت اور وقار کے ساتھ استقامت کو علاقے میں ایک اسٹریٹیجک توازن میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔
شہید نصراللہ ہر تحریک کے وجود کے جواز کو ہتھیاروں اور غیرملکی حمایت میں نہیں، عوامی حمایت اور سماجی جڑوں میں پوشیدہ سمجھتے تھے اور انہیں بنیادوں پر حزب اللہ ایک چھاپہ مار گروہ سے لبنان اور عالم اسلام کے ایک مؤثر سیاسی، سماجی اور ثقافتی کھلاڑی میں تبدیل ہوگیا۔
سید حسن نصراللہ کا ایک ہنر یہ تھا کہ انہوں نے ایک فوجی تحریک کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے تمدنی اور اخلاقی تفکر میں تبدیل کردیا۔
بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں حزب اللہ نے اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کا منظرنامہ پیش کردیا۔ سن 2000 میں جب صیہونی فوج مذاکرہ کیے بغیر جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوئی تو دنیا کو سمجھ میں آگیا کہ مغربی ایشیا میں طاقت کا توازن استقامتی محاذ کے حق میں مڑ چکا ہے۔ پہلی بار تاریخ میں اسرائیل، اس بات پر مجبور ہوا کہ غصب شدہ زمینوں سے کوئی رعایت حاصل کیے بغیر پسپائی اختیار کرے۔ یہ کامیابی سفارتکاری سے نہیں، بلکہ متحرک استقامت اور لبنانی عوام کی مزاحمت سے حاصل ہوئی۔
چھے سال بعد، سن 2006 میں، اسرائیل نے عالمی طاقتوں کی مدد سے لبنان پر جنگ مسلط کی تا کہ ماضی کے توازن کو تبدیل کیا کردے، لیکن نصراللہ کی ہوشمندی پر مبنی قیادت کے نتیجے میں، نہ صرف حزب اللہ ہر ہتھیار سے لیس اسرائیل کی فوج کے سامنے مزاحمت کرسکا، بلکہ فوجی دفاع کے ایک نئے توازن کو جنم دے دیا۔ اس وقت سے اب تک، صیہونیوں کو ہر جارحیت میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فلسطین کی حمایت؛ نصراللہ کی اصولی اسٹریٹیجی
سیاست کے میدان کے بہت سے کھلاڑی فلسطین کو صرف ایک ڈپلومیٹک کارڈ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن نصراللہ کے لیے فلسطین محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک عقیدہ تھا۔ وہ ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو، صرف ایک سرزمین کے لیے جنگ نہیں بلکہ ایک انسانی، اخلاقی اور تاریخی معاملہ سمجھتے تھے جس کا تعلق براہ راست امت اسلامیہ کے وقار سے ہے۔
دراصل نصراللہ کی قیادت میں، حزب اللہ، فلسطین کی حمایت اور غاصبانہ قبضے کے مقابلے میں استقامت کے خیمے کا ایک اہم ستون ثابت ہوا۔
سید حسن نصراللہ نے فلسطین کی حمایت میں حزب اللہ کی صلاحیتوں کو صرف فوجی میدانوں میں نہیں، بلکہ سفارتی اور میڈیا کے پلیٹ فارم پر استعمال کیا اور صیہونی حکومت کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔
نصراللہ نے فلسطینی مزاحمت کو نہ صرف غاصبوں کی زد، بلکہ بعض علاقائی سازشی تحریکوں سے بھی محفوظ رکھا اور مسئلہ فلسطین کو حیات نو بخش دی۔
طوفان الاقصی میں نصراللہ کا کردار
طوفان الاقصی کارروائی کے آغاز کے کچھ عرصے بعد حزب اللہ نے فلسطینی عوام کی حمایت میں صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں داخل ہوگیا جسے لبنان کی استقامت کا ایک اور سنہری دور قرار دینا چاہیے۔
یہ قدم، ایک عارضی ردعمل نہیں بلکہ طویل المدت اسٹریٹیجی کے تحت اٹھایا گیا۔ اس سے اسرائیل کی جنگی صلاحیتوں کا تجزیہ کیا گیا اور غزہ میں نسل کشی کو روکنے کی کوشش کی گئی۔
سید حسن نصراللہ نے دوراندیشی پر مبنی یہ فیصلہ کرکے، ثابت کردیا کہ استقامت، ایک محدود مفہوم نہیں بلکہ ایک تاریخی تحریک ہے جو کہ ہمیشہ عدل و انصاف کی راہ پر گامزن رہے گی۔
حزب اللہ؛ ناقابل شکست عوامی تحریک
علاقے کے دوسرے فوجی اور سیاسی گروہوں کے برخلاف حزب اللہ کی ایک بڑی خصوصیت اس کا عوامی ہونا ہے۔ حزب اللہ صرف ایک فوجی گروہ یا سیاسی دھڑا نہیں بلکہ لبنانی معاشرے سے نکلی ایک حقیقی تحریک ہے اور اس کی کامیابی اور بقا اسی عوامی جڑوں کی وجہ سے ہے۔ جب بھی استقامت کے دشمنوں نے اس کے قائدین کو قتل کیا یا بیرونی دباؤ ڈالا تا کہ اس تحریک کو کمزور کرسکیں، حزب اللہ کے عوامی ڈھانچے نے اپنی تعمیر نو کرکے پہلے سے کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ اپنے راستے کو جاری رکھا۔
اس حقیقت نے ثابت کردیا کہ جن تحریکوں کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں، انہیں سرکوب یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔
نصراللہ کی میراث اور استقامت کا مستقبل
سید حسن نصراللہ کو ایک فوجی لیڈر یا ایک سیاستداں کی حد تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک اسٹریٹیجک مفکر تھے جنہوں نے استقامت کی ایک نئی مثال پیش کردی؛ ایسی مزاحمت جو فوجی حربوں سے شروع ہوئی لیکن ایک فکری، سماجی اور سیاسی نظام میں تبدیل ہوگئی۔
نصراللہ کی میراث، جنگ کے میدانوں سے آگے، استقامت اور علاقائی خودمختاری کی جانب ان کی گہری نگاہ میں پوشیدہ ہے۔
آج شائد دشمن یہ تصور کربیٹھیں کہ سید حسن نصراللہ کی غیرموجودگی سے ان کا راستہ رک گیا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح یہ ان کی بھول اور حقیقت کو سمجھنے میں ان کے غلط اندازہ ہے۔ نصراللہ جیسے مرد، اپنے جسم میں نہیں، اپنے افکار میں زندہ رہتے ہیں۔ یہ راہ، وہی راہ ہے جسے مجاہدوں نے اپنے خون سینچا ہے اور یہ راستہ حریت پسند عوام کے عزم و ارادے سے جاری رہے گا۔ مستقبل ان ملتوں کا ہے جو عزت اور وقار کو ذلت پر، استقامت کو ہتھیار ڈالنے پر اور امید کو مایوسی پر ترجیح دیتے ہیں۔