انہوں نے کہا کہ آج استقامتی محاذ امام حسین (ع) اور حضرت علی (ع) کو اپنا نمونہ عمل بنائے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر علاقے کے حکام کی پسپائی اور بعض عرب ممالک کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کی کوشش کے نتیجے میں ہی غاصب اسرائیلی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے بارے میں سوچنے لگے تھے لیکن طوفان الاقصی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اور فلسطین کے سامنے ایک نئے مستقبل کا دروازہ کھول دیا۔
انہوں اسرائیل کو ایک سرطان زدہ ٹیومر قرار دیا جو امریکہ کی حمایت کے بغیر تباہ ہوجاتا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے طوفان الاقصی کے بعد صیہونی حکومت کے فوجی بجٹ کے 70 فیصد حصے کا اہتمام کیا ہے۔
حماس کے نمائندے نے نوجوان نسل کو عالمی حالات سے آگاہ رہنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آج کی نسل جان لے کہ بہت بڑی تبدیلیاں درپیش ہیں۔
خالد القدومی نے صیہونیوں کو حاصل امریکی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو لیکر ڈیموکریٹ کملا ہیرس اور ری پبلیکن ڈانلڈ ٹرمپ کے مابین کوئی فرق پایا نہیں جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی تشہیراتی مہم میں اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظر میں حزب اللہ اور حماس کو اسرائیل کے حق میں تباہ کرکے ہی جنگ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
حماس کے نمائندے نے کہا کہ ٹرمپ وہی شخص ہے جس نے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔
خالد القدومی نے سید حسن نصراللہ سمیت دیگر مجاہد رہبروں کی شہادت کو استقامتی محاذ کی تقویت کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دشمنوں پر حملوں میں شدت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا: " آج ہماری عوام ماضی سے کہیں زیادہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پرعزم ہے اور اسی لیے اس نے استقامت اور شہادت کی فرہنگ کا انتخاب کیا ہے۔
ایران میں حماس کے نمائندے نے زور دیکر کہا کہ ماضی کی ذلت آمیز سفارتکاری سے دور، فلسطین کی آزادی تک صیہونی فوج کے مدمقابل ڈٹے رہیں گے کیونکہ اسرائیل کے سامنے استقامت کے علاوہ اور کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
خالد القدومی نے کہا کہ غزہ کے موجودہ بحرانی حالات کے باوجود اس خطے کے عوام مستحکم انداز میں ڈٹے ہوئے ہیں جو فلسطین کے لیے ایک روشن مستقبل روشن کی نوید ہے۔