انہوں نے صیہونی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نتن یاہو اپنی کرسی بچانے کے لئے ایسے قدم اٹھا رہے ہیں جن سے حماس سے قیدیوں کے معاملے میں ڈیل نہ ہوسکے۔
ایہود باراک نے کہا کہ سیکورٹی اداروں اور بنی گانتس اور آئیزنکوٹ کے مشوروں کو نظرانداز کرکے، نتن یاہو خود کو حماس کے سامنے ایک طاقتور کمانڈر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نتن یاہو صیہونی قیدیوں کی رہائی کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان کے عملی اقدامات ان کی باتوں کے منافی ہیں جس کا ایک ثبوت ایسے حساس مرحلے میں حماس کے کمانڈروں کے قتل کی دھمکیاں ہیں۔
سابق صیہونی وزیر اعظم نے کہا کہ جب قیدیوں کے تبادلے کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو اسی وقت نتن یاہو حماس کی قیادت کے قتل کی دھمکی دینے لگتے ہیں جس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ یحیی سنوار! قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔
انہوں نے دعوی کیا کہ بہترین راہ حل، عرب ممالک اور امریکہ کے ساتھ ایک بڑے سیاسی معاہدے کا حصول ہے، تاہم نتن یاہو کی قیادت میں ایسی کوئی بھی چیز ناممکن نظر آرہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ تل ابیب نے مصر اور قطر کو پیغام دیا ہے کہ جب تک حماس زندہ صیہونی قیدیوں کی فہرست جاری نہیں کرتا تب تک مذاکرات کا سوال نہیں اٹھتا۔
صیہونی حکومت کا دعوی ہے کہ اس وقت 134 صیہونی، حماس کی قید میں ہیں جن میں 6 امریکی شہری ہیں اور 31 ان کے بقول ہلاک ہوچکے ہیں۔
دریں اثنا ایک مصری باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ غزہ میں حماس کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اور حماس کے شہیدوں، قیدیوں اور زخمیوں کے ادارے کے سربراہ زاہر جبارین "پیرس 2" مذاکرات کے سلسلے میں قاہرہ پہنچنے والے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک صیہونی عہدے دار نتسان آلون بھی حماس کے جواب کا جائزہ لینے کے لئے قاہرہ جا رہے ہیں۔
مصری باخبر ذریعے نے بتایا ہے کہ اگر صیہونی کابینہ کو ان کے بقول حماس کا جواب مناسب لگا تو پھر مذاکرات جاری رہیں گے۔
ادھر صیہونیوں کے امور کے ماہر مامون ابوعامر نے العربی الجدید کو بتایا ہے کہ غزہ میں صیہونیوں کے ہاتھوں قتل عام کے تازہ واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر غم و غصے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے دباؤ میں آکر نتن یاہو مذاکرات میں اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔