روئٹرز کے مطابق، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر (OHCHR) کے دفتر نے 28 دسمبر کورپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے ابتک ویسٹ بینک میں 300 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ فلسطینی، صیہونی حکومت کی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں یا ان کے ساتھ جھڑپوں میں شہید ہوئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان شہداء میں سے کم از کم 105، صیہونی حکومت کے فضائی حملوں، دیگر فوجی حربوں میں پناہ گزین کیمپوں یا پرہجوم علاقوں میں شہید ہوئے جبکہ کم از کم 8 افراد یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں مارے گئے۔
غاصب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے ترجمان نے اس رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور کہا کہ ہم نے اس علاقے میں دہشت گردی کے سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور ہم اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا کہ ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کے خلاف غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کا استعمال "انتہائی تشویشناک" ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اسرائیل سے کہتا ہوں کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے فوری طور پر موثر اور واضح اقدامات اٹھائے اور آبادی کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز یا آباد کاروں کی جانب سے کیے گئے تمام پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرے۔
اقوام متحدہ کے دفتر کے مطابق، بڑے پیمانے پر من مانی غیر قانونی حراستوں اور فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تشدد اور دیگر اقسام کے ناروا سلوک کے واقعات کے ثبوت بھی دستاویز کا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے اعلان کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک ویسٹ بینک میں تقریباً 4,785 فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض فلسطینی قیدیوں کو برہنہ کیا گیا، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور ہتھکڑیاں باندھ کر کئی گھنٹوں تک کھڑا رکھا گیا جبکہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کی کمر اور سروں پرپائوں رکھے۔ قیدیوں کو دیواروں کے ساتھ دھکیل دیا گیا، دھمکیاں دی گئیں، ان کی توہین اور تذلیل کی گئی اور بعض صورتوں میں ان کے ساتھ تشدد اور جنسی طور پر ہراساں بھی کیا گیا۔
صیہونی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ ویسٹ بینک میں مشتبہ فوجیوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور زیر حراست افراد کے ساتھ بدسلوکی کے ممکنہ واقعات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔