اسلام آباد، ارنا- پاکستانی وزیر خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے مشترکہ سرحدوں کی صورتحال میں بہتری آنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران، دونوں ملکوں کے درمیان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں تعاون میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار "شاہ محمود قریشی" نے پریس ٹی وی چینل کی خاتون اینکر"مرضیہ ہاشمی" سے ایک انٹرویو کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تہران اور اسلام آباد نے مشترکہ سرحدوں کے قریب عدم تحفظ اور کسی بھی دہشتگردانہ نقل و حرکت سے نمٹنے کیلے تعاون میں اضافہ کردیا ہے۔

قریشی نے حالیہ دنوں میں تہران میں منعقدہ افغان پڑوسی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے دوسرے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ تعاون میں اضافہ بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ طے پائے گئے معاہدے بہت اہم ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان نے دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے اقتصادی تعاون کو وسعت دینے کے لیے ایران اور پاکستان کے پختہ عزم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھار مشترکہ سرحدوں میں ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جن میں تخریب کار عناصر ملوث ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ ہماری سرحدیں پُرامن ہوں؛ لیکن ایران اور پاکستان امن اور دوستی کی اپنی سرحدیں قائم کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے تین سالوں کے دوران، ایران سے باہمی تعلقات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگیا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے پاس حادثات کو روکنے اور دہشت گرد عناصر کا مقابلہ کرنے کیلئے سرحدوں پر ہم آہنگی کا ایک فعال طریقہ کار موجود ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایسے ڈھانچے ہیں جن کے ذریعے ہم سرحدوں کے پار رابطہ قائم کر سکتے ہیں، معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں اور کسی بھی واقعے سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنا سکتے ہیں؛ خوش قسمتی سے سرحدی واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بہتر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں سے ایک ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانا ہے اور ہمیں امید ہے کہ باڑ لگانے کا کام 2021 کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

 شاہ محمود قریشی نے ایران اور پاکستان کے درمیان مختلف سطحوں پر اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلوں میں اضافے جن میں پاکستان آرمی ٹریننگ کے ڈائریکٹر جنرل  ے حالیہ دورہ تہران اور پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت کے آئندہ دورہ تہران شامل ہیں، کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دو طرفہ تجارت میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں لیکن بینکنگ چینل کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

قریشی نے کہا کہ ایران اور پاکستان کو دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے جدید طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے تجارتی مشیر، مشترکہ تجارت کو بڑھانے کے طریقوں پر بات چیت کے لیے ایک وفد کی قیادت میں اگلے مہینے میں ایران کا دورہ کریں گے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے افغانستان میں قیام امن کی بحالی کیلئے علاقائی تعاون اور ایران میں افغان پڑوسی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے دوسرے اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی اور اس ملک میں اس گروہ کے دہشتگرد عناصر کی نقل و حرکت، پاکستان سمیت دیگر علاقائی ملکوں کے شدید خدشات کا سبب ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی تجویز چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مشترکہ مدد ہے، اور دہشت گردی افغانستان اور خطے کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے دہشت گردی کو افغانستان کو درپیش اہم چیلنجوں میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ اسلام آباد خطے میں داعش کے پھیلاؤ کو نہیں دیکھنا چاہتا اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے چیلنجوں میں سے ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کا وجود ہے، اور داعش ان میں سے ایک ہے۔ ہم افغانستان یا خطے میں ان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہونا چاہتے۔ اس لیے ہمیں ایسے عناصر سے نمٹنے کیلئے ایک مربوط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے پاکستانی فضائی حدود کے ذریعے افغانستان میں امریکی انٹیلی جنس آپریشنز کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کسی بھی معاہدے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا اچانک انخلا اور اشرف غنی کی حکومت کی کمزوری افغانستان میں افراتفری کی بنیادی وجہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے دیکھا کہ کابل کے ہوائی اڈے پر کیا ہوا اور سینکڑوں بے دفاع جانیں ضائع ہوئیں، اس لیے امریکہ کے اچانک انخلا نے افغانستان میں انتشار اور افراتفری کو بڑھا دیا۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@