میڈرڈ، ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق سفارتکار نے کہا ہے کہ شہید جنرل سلیمانی اور شہید فخری زادہ کے قتل نے ایرانی قوم کی امریکی مخالف جذبات کو بھڑکایا ہے لہذا امریکی منتخب صدر جو بائیڈن کو بغیر پیشگی شرط سے جوہری معاہدے میں شامل ہوکر اعلی ایرانی عہدیداروں کیخلاف عائد پابندیوں کو اٹھانا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار "سید حسین موسویان" نے "میڈل ایسٹ آئی" میگزین میں شائع کئے گئے ایک کالم میں کیا ہے۔

انہوں نے اس کالم میں کہا ہے کہ اعلی ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کو گزشتہ ہفتے میں قتل کیا گیا تھا؛ تین امریکی عہدیداروں (بغیر نام بتائے ہوئے) نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اس قتل کے پیچھے ناجائر صہیونی ریاست کا ہاتھ ہے

اس قتل سے چند روز قبل صہیونی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی سعودی عرب میں خفیہ ملاقات ہوئی۔

ناجائز صہیونی ریاست کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ اس اجلاس کا مقصد ٹرمپ کے عہد صدارت کے باقی ہفتوں میں خفیہ کاروائی اور ایران کیخلاف دباؤ اور پابندیوں میں مزید اضافہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدے پر دستخط سے پہلے ناجائز صہیونی ریاست نے ایران کے پانج جوہری سائنسدانوں کا قتل کیا جو شہید "رشید حسن پور"، "مسعود علی محمدی"، "مصطفی احمدی روشن"، "داریوش رضایی" اور "مجید شہریاری" تھے۔

کالم میں کہا گیا ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست نے اسی وقت کے ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ "فریدون عباسی" کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی تا ہم  وہ کامیاب نہ ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد فخری زادہ کا قتل؛ جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد ایرانی عہدیداروں کیخلاف تشدد کی یہ سب سے بدصورت اور غیر انسانی حرکت ہے۔

فخری زادہ نہ صرف جوہری شعبے کے اعلی سائنسدان تھے بلکہ کورونا کٹس ٹسٹ اور ویکسین کی تیاری میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

موسویان نے کہا کہ  اس فتل کا وقت حادثاتی نہیں تھا؛ کیونکہ بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر ایران، جوہری وعدوں میں واپس آئے تو امریکہ بھی جوہری معاہدے میں از سر نو شامل ہوگا تا کہ وہ تہران سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے؛ لہذا اس قتل کا مقصد اسی پالیسی کو ناکام بنانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اگر بائیڈن 20 جنوری 2017 یعنی ٹرمپ کی صدرات سے پہلی کی صورتحال پر واپس آجائیں تو ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات کا بڑی آسانی سے حل ہوجائیں گے۔

موسویان نے کہا کہ ایرانی سپریم لیڈر نے کہا ہے کہ "ہم نے مذاکرات کے ذریعے پابندیوں کی منسوخی کا تجربہ کیا جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا" اور انہوں نے ایک بار پھر امریکہ کیساتھ بات چیت کرنے میں اپنا عدم اعتماد ظاہر کیا۔

جوہری معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی، جنرل سلیمانی اور فخری زادہ کا قتل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کا نقطہ نظر صدر روحانی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔

ایک ایسے وقت جب امریکہ اور ایران کو جوہری معاہدے کی بحالی میں بہت سے داخلی مسائل درپیش ہیں تو بائیڈن کی جوہری معاہدے میں واپسی کی پالیسی نے نیتن یاہو اور بن سلمان کو اس حد تک ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں ان کی پومپیو سے غیر معمولی ملاقات ہوئی تھی؛ انہوں نے [جوہری معاہدے کیخلاف] کوئی کاروائی نہیں چھوڑی ہے اور بائیڈن انتظامیہ کو ایران جوہری معاہدے میں  از سر نو شمولیت سے روکنے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

موسویان نے کہا کہ فخری زادے کے قتل کا مقصد ایران سے متعلق بائیڈن کی پالیسی کو روکنا تھا؛ کیونکہ بائیڈن نے زور دے کر کہا ہے کہ جوہری معاہدے میں واپسی کا مقصد در حقیقت سفارت کاری میں واپس آنا ہے۔

لہذا بائیڈن کو صدر روحانی کی حکومت کی بقیہ مدت کے دوران جوہری معاہدے میں از سر نو شمولیت کیلئے کوئی شرط نہیں رکھنی ہوگی اور ایران کساتھ زیربحث امور کو وسعت دینے کی کوشش نہیں کرنی ہوگی۔

تو اس طرح کا مطالبہ جوہری معاہدے کی بحالی کے عمل کو ناکام بنایا جائے گا؛ کیونکہ اس وقت خصوصا سردار سلیمانی اور فخری زادہ کے قتل کے بعد ایرانی عوام کی امریکی مخالف جذبات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ ایران جوہری معاہدے کو مکمل اور مربوط طریقے سے نافذ کیا جانا ہوگا؛ جب جوہری معاہدے پر دستخط ہوئے تھے تو ایران کیخلاف امریکی ابتدائی پابندیوں کی وجہ سے اس کا مکمل نفاذ ممکن نہیں تھا اور ایران مکمل معاشی فوائد سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا تھا۔

لہذا امریکہ کو ایران کیخلاف ابتدائی پابندیوں کو اٹھانا ہوگا تا کہ جوہری معاہدے کے دیگر فریقین اس پر بھر پور طریقے سے عمل کرسکیں۔

اس کے علاوہ علاقائی معاملات جیسے روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں کا علاقائی، جامع اور کثیرالجہتی سفارت کاری کے ذریعے حل ہونا ضروری ہے؛ سعودی عرب کے پاس ایک خفیہ جوہری پروگرام کیساتھ 5 ہزار کلومیٹر تک مارگرانے کی صلاحیت سے چینی میزائل ہیں؛ ناجائز صہیونی کے پاس 5 ہزار کلومیٹر کی رینج کیساتھ جیریکو میزائل اور جوہری وار ہیڈس لے جانے کی صلاحیت سمیت سیکڑوں جوہری بم بھی ہیں لیکن مغرب کی تمام تر توجہ ایران کی میزائل پروگرام پر ہے جس کے میزائل کی زیادہ سے زیادہ رینج 2 ہزار کلومیٹر تک ہے اور اس کے پاس جوہری بم بھی نہیں ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@