تہران، ارنا- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر2231 ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات کی سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک ہے جس کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل سات سے نکالنے سمیت 18 اکتبر کو ایرانی دفاعی صلاحیتوں کیخلاف عائد پابندیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

اس بین الاقوامی قرارداد کے مطابق 18 اکتبر کو ایران پر اسلحے کی پابندی کا خاتمہ ہوجائے گا؛ وہ پابندیاں جن کے تحت ایران جوہری معاہدے سے پہلے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ایران کو دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدنے اور نیز دیگر ممالک کو ایرانی اسلحے کی خریداری پر پابندی عائد تھی۔

اب جیسے ہی 18 اکتبر اور ایران جوہری معاہدے پر دستخط کی پانجویں سالگرہ کی تاریخ کے قریب ہوتے ہیں ویسے ہی بین الاقوامی میدان میں اثر و رسوخ اور پوزیشن کے دعوے دار ممالک کیلئے ایک تاریخی دن کے قریب ہوتے ہیں جن کو میں کثیرالجہتی کے ماڈل اور یک قطبی نظام کے درمیان انتخاب کرنا ہوگا۔

امریکہ 8 مئی 2018 ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت سے ایران جوہری معاہدے سے علحیدہ ہوگیا اور اس کے بعد اس نے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مزید طاقتور ہونے کے خدشات سے ایران کیخلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے" کی پالیسی اپنائی ہے اور دوسروں کو بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کیلئے اکسایا ہے۔

امریکی نمائندے برائے ایران کے امور "برایان ہوک" نے آج کل متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں تعینات امریکہ کی سابق خاتون مندوب "نیکی ہیلی" کی جعلی شوز کا سلسلہ جاری رکھا ہے تا کہ خطے کے عرب حکمرانوں میں ایران کے اسلحے کی پابندی کے خاتمے سے خوف و ہراس پھیل سکے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کو روکنے اور ایران کے اسلحے پر پابندی کو جاری رکھنے کی راہ ہموار کرے جو مکمل طور پر غیر قانونی اور ناجائز ہے۔

ان تینوں یورپی ممالک یعنی جرمنی، برطانیہ اور فرانس جن کا ایران جوہری معاہدے کے نفاذ کے بعد سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی پر متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، نے حال ہی میں امریکہ کی حمایت سے آئی اے ای اے بورڈ آف گورنرز کو ایران مخالف قرار داد تجویز کیا، جس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بورڈ آف گورنز نے 19 جون کو آٹھ سالوں کے بعد ایران مخالف قرارداد کی منظوری دی۔

در حقیقت یورپ نے ایران کیخلاف اس حیران کن قرارداد کی تجویز پیش کرنے سے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ امریکی یکطرفہ طرز عمل کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ کمزور اور بے بس ہے۔

آج بروز منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں قرارداد 2231 کے نفاذ سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ کی نویں رپورٹ سنائی ہوگی۔

اس قرارداد کے تحت، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرارداد کے نفاذ کے بارے میں ہر چھ ماہ بعد سلامتی کونسل کو رپورٹ کریں اور دوسرے ممبران سے اس پر تبادلہ خیال کریں۔

اقوام متحدہ میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب "مجید تخت روانچی" نے اس حوالے سے ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے سربراہ اور دیگر ممالک ایران جوہری معاہدے اور قرارداد 2231 کے نفاذ کے خواہاں ہیں؛ یہ ایسی بات جس کو  سننے میں امریکہ دلچسپی نہیں رکھتا ہے لیکن اسے اس اجلاس میں ایک بار پھر سننے پر مجبور ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کا مقصد ایران جوہری معاہدے کی تباہی ہے اور ٹرمپ نے بھی پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کو نہیں مانتے۔

تخت روانچی نے کہا کہ ٹرمپ نے حالیہ سالوں کے دوران اس معاہدے کی تباہی کی بہت کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوگئے اور زمان گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی وہ دنیا میں مزید تنہایی کا شکار ہوگئے لہذا وہ جوہری معاہدے کو مٹانے کیلئے ہاتھ پاوں مارتے ہیں۔

انہوں نے سلامتی کونسل کے بورڈ آف گورنز میں ایران کیخلاف تین یورپی ممالک کی تجویز کردہ قرارداد کی منظوری کو بین الاقوامی اصولوں کے خلاف قرار دے دیا۔

تخت روانچی نے کہا کہ اس قرارداد، ووٹ دینے کی قسم اور حتمی ووٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کے سب ایران کیخلاف دباؤ ڈالنے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ ایک ایسے وقت ہیں جب ہم عالمی ایٹمی ایجنسی کیساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قرارداد کی منظوری حیرت کن ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ محض ایران کیخلاف دباؤ ڈالنے کا ایک سیاسی اقدام ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ سلامتی کونسل میں ایران مخالف امریکی اقدامات کے سلسلے میں ہے۔

لہذا ٹرمپ کے دباؤ میں امریکہ کے علاوہ، یورپ بھی ، آئی اے ای اے بورڈ آف گورنرز کے ذریعہ نافذ کردہ ماڈل کی نقل تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایران کے اسلحے کو محدود رکھنے کی تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور قرارداد 2231 پر یورپ کے عمل پیرا نہ ہونے وجہ در اصل جوہری معاہدے کی تباہی کیلئے امریکہ کا ساتھ دینا ہے۔

یورپ کے اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ چاروں مغربی ممبران جنہوں نے ایران جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے وہ اس معاہدے سے دستبردار ہوچکے ہیں اور اب جوہری معاہدے کے نام سے کوئی دستاویز موجود نہیں ہوگی۔

دوسری طرف، قرارداد 2231 کو کس طرح نافذ کیا جائے، یہ چین اور روس سمت جوہری معاہدے کے دیگر اراکین کیلئے بہت اہم ہے؛ امریکہ نے، اپنی قومی سلامتی کے تزویراتی دستاویز کے مطابق ، مشرق وسطی میں اپنے مفادات کو روس اور چین کے ساتھ مسابقت پر مرکوز کیا ہے اور وہ ایران پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 لہذا؛ تین نومبرکے امریکی صدارتی انتخابات کے موقع پر وائٹ ہاؤس کی ایران کے بارے میں پالیسی، اگرچہ اسٹریٹجک صبر اور مزید پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ فوجی تصادم نہیں ہے  لیکن اس میں اسلامی جمہوریہ ایران پر نفسیاتی جنگ کے اخراجات مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

در حقیقت چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی "سرگرم مزاحمت" کی حکمت عملی کے ساتھ  مختلف سیاسی، معاشی اور عسکری شعبوں میں ضروری صلاحیتیں پیدا کیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طے پانے والے معاہدوں کو سیاسی رنگ دینے سے تہران کیجانب سے اپنے حقوقی اور سفارتی صلاحیتوں کو استمعال کرنے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@