تہران، ارنا – امریکہ نے ویانا مذاکرات کے دوران ایران پر عائد کچھ جوہری پابندیوں سےاستثنیٰ کو بحال کر دیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایران پر عائد کچھ جوہری پابندیوں سےاستثنیٰ کی بحالی کو مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

 امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے جمعہ کے روز ایران کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں ہٹانا دوبارہ شروع کر دیں۔ انہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2020 میں نافذ کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے مقامی وقت کے مطابق جمعہ کے روز انتھونی بلنکن نے جمعہ کے روز ایران کی سویلین جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں کی کئی چھوٹ پر دستخط کیے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2020 میں اس چھوٹ کو منسوخ کر دیا تھا جس میں روسی، چینی اور یورپی کمپنیوں کو ایرانی جوہری مقامات پر عدم پھیلاؤ کی کارروائیاں کرنے کی اجازت دی-

امریکی پابندیاں ہٹانے کے لیے ویانا مذاکرات اور اس ملک کو جوہری معاہدے میں واپسی ایک نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کانگریس کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ان سرگرمیوں سے مستثنیٰ ہونے سے جوہری معاہدے کو مکمل کرنے میں مدد ملے گی اور اور ایران کو جوہری معاہدے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے موقع فراہم کرتا ہے۔

وزارت نے دعویٰ کیا کہ پابندیوں کی چھوٹ کو بحال کرنا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ میں امریکی مفادت کو پورا کرنے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اس استثنیٰ میں اراک میں ایران کے بھاری پانی کے تحقیقی ری ایکٹر کی تبدیلی، تہران کے تحقیقی ری ایکٹر کو افزودہ یورینیم کی فراہمی اور صرف شدہ ایندھن کی بیرون ملک منتقلی شامل ہے۔ پابندیوں سے مستثنیٰ بیرونی ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ، اراک ہیوی واٹر پلانٹ اور تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں سویلین منصوبوں پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سابق امریکی انتظامیہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مئی 2020 میں  اس چھوٹ کو منسوخ کر دیا تھا ۔

محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام "ہمارے اہم قومی مفادات کے ساتھ ساتھ خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔"

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@  

https://twitter.com/IRNAURDU1