ان خیالات کا اظہار "محسن روحی صفت" نے جمعرات کے روز ارنا نمائندے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی مشترکات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک کے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کے درمیان گہرے قریبی تعلقات ہیں اور حتی کہ بعض ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں۔
روحی صفت نے دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ سرحدوں میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی گزرگاہوں کا افتتاح اور دونوں قوموں کے درمیان تعلقات کا فروغ؛ باہمی اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چار سرحدی مقامات کو باضابطہ طور پر دوبارہ کھولنے کا حکم دیا گیا ہے اور اب میرجاوہ اور ریمدان کی دو سرحدوں میں باضابطہ طور پر سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایرانی تجزیہ کار نے کہا کہ سرکاری سرحدوں کے کھلنے کے ذریعے بڑھتی ٹریفک، خطے کے عوام کے درمیان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مزید سامان کا تبادلہ کرنے کا سبب بنتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔
روحی صفت نے کہا کہ اس سے پہلے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اپنی ضروریات کی فراہمی پر مشکلات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے مصنوعات کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوتا تھا لیکن اب سرحدوں کے افتتاح سے سرحدی علاقوں کی معاشی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور پاکستان کے مابین دوسری سرحدی گزرگاہ ریمدان گبد کا حالیہ مہینوں میں باضابطہ افتتاح کردیا گیا ہے۔
نئی سرحدی گزرگاہ کے ذریعے ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی لین کے علاوہ مسافروں کو بھی قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ آنے جانے کی اجازت ہوگی۔
ایران پاکستان سرحد پر واقع ریمدان گزرگاہ، چابہار کی بندرگاہ سے ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے اس کا فاصلہ محض ستر کلومیٹر ہے۔
ریمدان گزرگاہ پاکستان، چین اور بھارت میں آباد دنیا کی سینتس فی صد آبادی کے لیے ایران تک رسائی کا سستا ا ور آسان ترین راستہ ہے۔
توقع ہے کہ ریمدان گبد سرحد کے افتتاح سے ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی لین میں اضافہ ہوگا اور مسافروں کو آنے جانے میں سہولت ملے گی۔
ایران اور پاکستان کے درمیان نو سو نو کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے تاہم اب تک دونوں ملکوں کے درمیان صرف میرجاوہ تفتان بارڈر ہی فعال رہا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@