یہ بات مجید تخت روانچی نے جمعرات کے روز افغانستان سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان مشترکہ دینی، ثقافتی ، لسانی اور تاریخی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارا استحکام، سماجی-ثقافتی ترقی اور معاشی ترقی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ایرانی صدر نے فرمایا ہے، ہم افغانستان کے استحکام کو اپنا استحکام سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عشروں کی بدامنی اور عدم استحکام صرف افغانوں کے مابین امن کے ایک جامع امن عمل جس میں طالبان سمیت تمام دھڑوں شامل ہیں، کے ذریعے ہی ختم ہوتی ہے.
تخت روانچی نے کہا کہ امن عمل کو ماضی کی کامیابیوں خصوصا موجودہ آئین ، انتخابات کے ذریعے حق خودارادیت کا تعین ، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عزم کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امن اور تشدد کے مذاکرات ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتے ہیں اور طالبان کو امن مذاکرات میں افغان حکومت کی نیک نیتی کے جواب میں افغان دفاعی اور سیکیورٹی فورسز پر اپنے حملے کو روکنا چاہیے ۔
ایرانی مندوب ہم امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ تمام فریقوں کی صبر اور دوسرے مفادات پر افغان عوام کے مفادات کی ترجیح سے کامیاب اور مؤثر نتائج بر آمد ہوں گے۔
تخت روانچی نے مزید کہا کہ ایران، افغان امن عمل میں اقوام متحدہ کے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا خواہاں ہے اور اس امن عمل کی کامیابی کیلیے اقوام متحدہ کے ساتھ باہمی تعاون بڑھانے پر تیار ہے۔
افغانستان میں سیکیورٹی کی تشویشناک صورتحال تشویشناک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی حملوں خاص طور پر بشمول داعش کی موجودگی سے افغانستان اور خطے کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے غیر ملکی افواج کی موجودگی کو افغانستان میں عدم استحکام کا ایک اور ذریعہ بھی قرار دیا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@