تفصیلات کے مطابق، برطانیہ، قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ایران پر 20 ملین ڈالر مقروض ہے جو 1971 میں برطانیہ کیجانب سے شفٹین ٹینکوں کی ایران کو فروخت کرنے کے پرانے کیس سے متعلق ہے۔
برطانیہ ایران کیخلاف پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کا دعوی کر رہا ہے کہ اس نے پچھلے کئی سالوں میں پابندیوں کی وجہ سے قرض ادا نہیں کرسکا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ لندن نے گزشتہ چار دہائیوں میں ایرانی مطالبات کو روکنے کے ذریعے نمایاں منافع کمایا ہے۔
ایرانی حکومت نے بھی اس دعوے کو قانونی دلائل کیساتھ چیلنج کیا تھا اور کافی غور و خوض کے بعد عدالت کا حتمی فیصلہ گذشتہ ماہ مارچ میں جاری ہونا تھا۔
کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے اس فیصلے کو ملتوی کردیا گیا تھا اور حتمی ووٹ امریکی صدارتی انتخابات کے ایک دن بعد جاری ہوگا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ایران اور برطانیہ کی حکومتوں نے بار بار کہا ہے کہ لندن سے تہران کی درخواست کا دوہری شہریوں کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے تا ہم جب بھی اس معاملے میں ذرا پیشرفت کی روشنی آجاتی ہے برطانوی میڈیا اور سائبر پروجیکٹس میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے معاملے میں ملزم "نازنین زاغری" کے خاوند "رچرڈ رٹ کلیف" اس سیاسی تبدیلی میں حصہ لینے کیلئے نیوز کمپنیوں کے پاس جاتے ہیں۔
وہ پچھلے چار سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف بے بنیاد الزامات لگانے سے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں اور وہ برطانوی عوام کے جذبات کو اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے فروری مہینے میں ایرانی قرض کیس میں سماعت کے دوران، برطانوی وزیر اعظم کے دفتر گئے تاکہ بورس جانسن سے ملاقات کریں اور اس معاملے میں اپنے حصے کی یاد دہائی کرائیں۔
لیکن ان کی اہلیہ، نازنین زاغری جو ایک ایرانی برطانوی شہری ہیں اوراس وقت اپنی سزا کاٹ رہی ہیں؛ ان کو حکومت کیخلاف پروپیگنڈا کرنے والی سرگرمیوں کے الزام میں سن 2016 سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایک برطانوی سرکاری عہدیدار نے برطانیہ پر ایران کے قرض کا اعتراف کیا تھا؛ برطانوی وزیر دفاع "بن والاس" نے وکلاء کے ایک گروپ کو لکھے گئے خط میں لکھا تھا کہ برطانوی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ایران کا قرض ادا کرنا ہوگا اور اس کی ادائیگی کے قانونی طریقوں کا تعاقب کرنا ہوگا۔
وہ جو برطانوی - ایران کے پارلیمانی دوستی گروپ کے ایک سابق ممبر اور ایران کے قرض کی ادائیگی میں حکومتی تاخیر کے نقاد ہیں، نے لکھا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ برطانیہ اور ایران کے درمیان 1974 اور 1976 میں 1500 چیفٹن ٹینک Chieftain tank اور 250 بکتر بند گآڑیوں کی خریداری کا معاہدہ 450 ملین پونڈ کی مالیت پر طے کیا گیا جو مغرب کی ایران کیخلاف ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے عملی نہ ہو سکا؛ دی ہیک کی عدالت نے برطانیہ کو رقم کی واپسی اور خسارہ دینے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
اس حوالے سے ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان "سعید خطیب زادہ" نے پیر کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض میڈیا والے اس معاملے کو دوہری شہریت رکھنے والی قیدی "نازنین زاغری" کے کیس سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ برطانیہ پر ایران کا قرضہ حتمی ہے اور اس کی ادائیگی میں تاخیر اس قرضے میں مزید اضافہ کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کو اس قرض کی ادائیگی کرنی ہوگی اور اس معاملے کا دیگر مسائل بشمول قیدیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ زاغری کیخلاف مقدمہ چلایا گیا ہے اور ایرانی عدلیہ بالکل آزاد تنظیم ہے اور زاغری بھی اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس کیس کا اپنا عدالتی راستہ ہے اور یہ صرف سیاسی معاملہ نہیں ہے اور اسے اپنے عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور عدالتی عمل ختم ہونے کے بعد کچھ بھی ممکن ہے؛ محکمہ خارجہ معاملات میں سہولت کیلئے عدلیہ سمیت دیگر تنظیموں کیساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@