ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر "حسن روحانی" نے آج بروز منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انہوں نے دوست اور ہمسایہ ملک ترکی کے نمائندے کو اقوام متحدہ کی 75 ویں اجلاس کے صدر کے طور پر چننے کو مبارکباد دیتے ہوئے، ان کیلئے اور اقوام متحدہ کے سربراہ کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے پر نیک خواہشات کا اظہار کرلیا۔
انہوں نے دنیا میں عالمگیر وبا کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس چھوٹے سے وائرس نے عالمی نظم و نسق اور داخلی حکمرانی کو اس حد تک چیلینج کا سامنا کیا ہے کہ ہمیں اہم ترین عالمی اجتماع بھی آن لائن طور پر منعقد کرنا پڑا۔
صدر روحانی نے کہا کہ آج سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیا کی ترقی کے سبب کرونا وائرس ایک "عام درد" بن گیا ہے؛ اس عام درد نے ظاہر کیا کہ تمام تر ترقی کے باوجود انسانی سائنس ابھی بھی اس کی لاعلمی کیخلاف اہم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وائرس ہم سب سے اللہ رب العزت کے سامنے مزید شائستہ ہونے کا مطالبہ کرتا ہے اور معاشرے کو انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات پر قائم ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
صدر روحانی نے کہا کہ اس عالمیگر وبا نے ایک بار پھر عالمی برداری کو اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ مشترکہ عالمی مسائل کو مشترکہ تعاون سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہ صورتحال سب کیلئے دشوار ہے لیکن میری قوم کو عالمی تعاون سے مستفید ہونے کے بجائے سخت سے سخت پابندیوں سے نشانہ بنایا گیا ہے؛ وہ پابندیاں جو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی اصولوں اور سلامتی کونسل کے قرارداد 2231 کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
صدر روحانی نے کہا کہ امریکی پولیس کا دنیا بھر میں ایک مظاہرہ کرنے والے شہری کیساتھ سلوک کرنے کی تصویر ہمارے لیئے انجانی نہیں تھیں کیونکہ اس فرد کے گلے پر دبائے گئے پیر اصل میں آزاد قوموں کے گلے پر دبائے گئے سامراجیت کا پیر تھا۔
***ایرانی قوم نے کئی دہائیوں سے آزادی کی قیمت ادا کی ہے
صدر روحانی نے کہا کہ ایران کی بہادر قوم نے کئی دہائیوں سے تسلط اور جبرسے آزادی کی قیمت ادا کی ہے اور مستقل مزاجی سے ترقی کی منازل طے کیا ہے اور قیام امن اور استحکام، انتہا پسندی کیخلاف جنگ اور رواداری اور مذاکرات کے خواہاں ملک کے طور پر اپنے اصولوں پر قائم رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سابقہ سوویت یونین کے غاصبوں، جنگجوؤں اور داخلی انتہا پسندوں، القاعدہ کے دہشت گردوں اور امریکی قبضہ کاروں کے خلاف افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہوکر 2001 کی بون کانفرنس اور علاقائی کوششوں میں دونوں امن اور مفاہمت کے عمل میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
صدر روحانی نے کہا کہ 1980 کی دہائی کے دوسرے نصف حصے میں ہم نے صدام کی حمایت میں خلیج فارس میں ٹینکر کی جنگ پیدا کرنے کیلئے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے سامنے خلیج فارس میں مشترکہ سلامتی کا مطالبہ کیا اور پھر 2013 میں بغیرتشدد دنیا کی تجویز کو پیش کیا جس کی ممبر ممالک کے اتفاق سے منظوری دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہم نے عدم جارحیت معاہدے کی تجویز پیش کی اور 2019 میں ہم نے خلیج فارس میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لئے ہرمز امن منصوبے کی تجویز دی۔
صدر روحانی نے کہا کہ ہم اس خطے میں پہلا ملک تھا جس نے کویت پر صدام کے قبضے کے مقابلے میں عوام اور حکومت کویت کیساتھ کھڑا ہوا تھا اور ہم نے صدام کے تمام عرب اتحادیوں پر تسلط کی خواہش کو ناکام بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام عراقیوں، کردوں، عربوں، سنیوں، شیعوں، یزیدیوں اور عیسائیوں کیساتھ ، صداموں کے ظلم ، امریکی قبضہ اور داعش کی بربریت کیخلاف کھڑے ہوئے اور اور 2003 کے بعد سے ہم نے عراقی گورننگ کونسل اور عراقی حکومت اور عوام کی جمہوری کامیابیوں کی حمایت کی۔
صدر روحانی نے کہا کہ ہم درجنوں تکفیری دہشتگرد گروہوں، علیحدگی پسندوں اور غیر ملکی جنگجوؤں کیخلاف شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور 2013 سے جب دوسرے فوجی حل تلاش کر رہے تھے تو ہم نے شامی عوام کی مرضی پر مبنی چار نکاتی امن منصوبہ پیش کیا اور روس اور ترکی کیساتھ شام میں امن اور سیاسی استحکام کے حصول کے لئے آستانہ عمل قائم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم صیہونی قبضے، داخلی جنگجوؤں اور غیر ملکی سازشوں کیخلاف لبنانی عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
*** ہم نے کبھی فلسطینی عوام کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کیا
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی قبضے، نسل کشی، بے گھر ہونے اور نسل پرستی کو نظرانداز نہیں کیا اور ہم نے کبھی بھی قدس اور فلسطینی عوام کے حقوق پر سودے بازی نہیں کی ہے اور 2012 میں ہم نے فلسطینی مسئلے کے حل کو استصواب رائے قرار دے دیا۔
صدر روحانی نے کہا کہ ہم نے یمن میں مظلوموں کے مظالم پر کھلے عام مقدمہ کیا اور 2015 میں یمن جنگ کے آغاز میں ہم نے یمن میں قیام امن کے لئے چار مضامین تجویز کیے۔
انہوں نے کہا کہ اس حساس خطے میں ہم نے صرف داعش اور انتہا پسندوں کیساتھ ہی جنگ لڑی ہے وہ جو اسلام کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں تاکہ عالمی برادری کو معلوم ہو کہ اصل اسلام کیا ہے؛ وہی اعتدال پسند اور عقلی اسلام، نہ انتہا پسندی اور نہ ہی توہم پرستی۔
صدر روحانی نے کہا کہ ہمارے شہید کمانڈر (جنرل سلیمانی) مشرق وسطی میں انتہاپسندوں کے تشدد کیخلاف جنگ کے ہیرو تھے اور انہوں نے قرون وسطی کی حکومت کے دعویداروں کے خلاف مذہبی اور غیر مذہبی شہریوں، مسلمان اور عیسائی، شیعہ اور سنی کی حفاظت اور دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2015 میں سفارتکاری کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر جوہری معاہدے پر دستخط کیا اور امریکی علیحدگی کے باجود ویسے ہی اس معاہدے پر قائم رہا۔
***ایرانی قوم پابندیوں کے مستحق نہیں ہیں/ امن کا جواب لڑائی نہیں ہے
ایرانی صدر نے کہا کہ ایسی قوم پابندیوں کے مستحق نہیں ہے؛ امن کا جواب جنگ نہیں ہے؛ انتہا پسندی سے لڑنے کا صلہ دہشت گردی نہیں ہے؛ ایران، عراق اور لبنان کی اقوام کے ووٹ کا جواب سڑکوں پر فسادات مسلط کرنے اور غیر جمہوری عمل کی حمایت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ دعوے کسوٹی نہیں ہیں اور صرف عمل ہی معیار ہے کیونکہ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ خطے میں صدام سے لڑنے آئے تھے جب کہ انہوں نے خود ایران کیخلاف مسلط کردہ جنگ میں اس عفریت کو مضبوط بنایا اور اسے کیمیائی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا۔
صدر روحانی نے کہا کہ وہ دہشت گردی اور داعش کے خلاف لڑنے کا دعوی کررہے ہیں جبکہ خود انہوں نے اس کو تخلیق کیا ہے اور وہ اس جرم کے لئے خطے کی اقوام کے مقروض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ہم پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پھیلاؤ کے بہانے سے دوسروں پر پابندیاں لگاتے ہیں جبکہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا جرم بنی نوع انسان کی تاریخ میں صرف ان کے نام پر درج کیا گیا ہے اور مغربی ایشیاء کے خطے میں جوہری ہتھیاروں والی واحد حکومت ان کی کٹھ پتلی بن گئی ہے۔
*** زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے سے ایرانی عوام کی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے
صدر روحانی نے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے دعوے دار ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے سے ایرانی عوام کی صحت، معیشت اور زندگی کے حق کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے کٹھ پتلی فلسطین، افغانستان، یمن، شام، عراق، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ میں تمام جنگوں، قبضوں اور جارحیتوں میں براہ راست ملوث ہیں لیکن وہ خطے کے عوام کی مرضی کے مطابق ایران کو اپنی ناگزیر شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
صدر روحانی نے کہا کہ وہ ہمارے خطے کو سیکڑوں اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچ کر انہوں نے اس کو گن پاؤڈر ڈپو میں تبدیل کردیا ہے لیکن تمام قانونی قواعد اور عالمی اتفاق رائے کے برخلاف وہ ایران کو کم سے کم دفاعی ضروریات سے محروم کرنے اور قرارداد 2231 کے واضح متن کے باوجود ایران کی اسلحے سے متعلق پابندیوں میں توسیع کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اگست اور ستمبر میں سلامتی کونسل کے سربراہان اور سلامتی کونسل کے 13 ممبروں خصوصا روس اور چین کا امریکہ کیجانب سے سلامتی کونسل اور قرارداد 2231 کے واضح غلط فائدہ اٹھانے پر مبنی درخواست کے مسترد کرنے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
صدر روحانی نے کہا کہ یہ ایران کیلئے نہیں بلکہ مغرب کے بعد کے دنیا میں بین الاقوامی نظام کی منتقلی کے لئے فتح ہے کہ بالادستی کا دعوی کرنے والی حکومت ایسی خود ساختہ تنہائی میں ڈوب جاتی ہے۔
*** پابندیوں کیساتھ زندگی مشکل ہے لیکن آزادی کے بغیر زندگی گزارنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے
صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ ہمیں نہ ہی مذاکرات اور نہ ہی جنگ پر مجبور کرسکتا ہے؛ پابندیوں کیساتھ زندگی مشکل ہے لیکن آزادی کے بغیر زندگی گزارنا اسے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اندرونی سیاسی آزادی ہمارے لئے بہت اہم ہے اور ہم مشرق وسطی کی سب سے قدیم جمہوریت کی حیثیت سے اپنی جمہوریت پر فخر کرتے ہیں اور غیر ملکی مداخلت کے لئے اندرونی اور ملکی آزادی کا سودا نہیں کریں گے۔
*** جمہوریت قوم کی خودمختاری کا حق ہے غیر ملکی مداخلت کا حق نہیں
انہوں نے کہا کہ جمہوریت قوم کی خودمختاری کا حق ہے غیر ملکی مداخلت کا حق نہیں؛ دہشتگرد اور مداخلت پسند اجنبی جو آج بھی اسی الجھن میں 19 اگست 1943 میں قید ہے؛ جس دن ان کے پیش رووں نے بغاوت کے ذریعے مشرق وسطی میں واحد جمہوریت کا تختہ پلٹ دیا تھا۔
*** ہم امریکی اندورنی معاملات اور انتخابی سودے بازی کا آلہ کار نہیں ہیں
صدر روحانی نے کہا کہ ہماری قوم کا وقار اور راحت ہمارے لئے اہم ہے جو قومی خواہش اور مزاحمت پر مبنی سفارت کاری کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے؛ ہم امریکی اندورن معاملاتی اور انتخابی سودے بازی کا آلہ کار نہیں ہیں؛ وہ حکومت جو امریکہ میں بر سرکار آئے گی وہ ایرانی مزاحمت کیخلاف ہتیھار ڈالے گی۔
*** جبر اور غنڈہ گری کو مسترد کرنے کا وقت ہے
انہوں نے کہا کہ آج جبر اور غنڈہ گری کو مسترد کرنے کا وقت ہے؛ دنیا پر قبضہ جمانے کا دور ختم ہوگیا ہے اور ہماری قومیں ایک بہتر، محفوظ اور زیادہ قانون نافذ کرنے والی دنیا میں رہنے کے مستحق ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@