تہران، 9 اگست، ارنا - اس سال جب ایرانی زائرین فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب پہنچے تو سعودی حکام نے پھولوں اور آب زمزم سے اُن کا استقبال کیا. دونوں ممالک کے تعلقات کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں تاہم حج کا موقع ان مسائل کے حل اور باہمی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے.

اپریل 2015 میں جدہ ایئرپورٹ پر دو ایرانی نوجوان زائرین کو جنسی طور پر ہراسان کئے جانے کے واقعے کے بعد ایران سعودیہ تعلقات کے تناؤ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا. سعودی اہلکاروں نے تلاشی لینے کا بہانہ بنا کر نوجوان ایرانیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا.

اس واقعے کے خلاف ایرانی اراکین پارلیمنٹ نے حکومت سے ایرانی شہریوں کے لئے عمرے کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ محکمہ ثقافت اور اسلامی گائیڈنس نے اسی دوران ایرانی شہریوں کے لئے عمرے پر پابندی لگادی.

اسی دوران سعودی عرب اپنے عرب اتحادیوں بالخصوص امریکہ کی مدد سے یمن پر لشکرکشی کی تیاری کررہا تھا. جدہ ائرپورٹ کا واقعہ ابھی بھولا نہیں تھا اور خطے میں نئی آگ چھڑنے جارہی تھی تو اس موقع پر منیٰ کا المناک سانحہ سامنے آیا جس نے دنیا کے مسلمانوں کو رنج و غم میں مبتلا کردیا.

یہ سانحہ اور سعودی حکام کے ایرانیوں کے ساتھ عدم تعاون نے دوطرفہ تعلقات کو مزید سردمہری کی طرف دھکیل دیا، اس سے پہلے مسجد الحرام میں کرین گرنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا.

منیٰ میں رونما ہونے والے المناک سانحے سے تہران اور ریاض کے تعلقات مزید کشیدگی کی طرف گئے جہاں تک ایرانی سپریم لیڈر نے توہین آمیز رویے پر سعودی عرب کو انتباہ کیا.

مشہور سعودی عالم دین اور شیعہ رہنما آیت اللہ نمر کو پھانسی دینے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی اس واقعے پر شدید ردعمل سامنے اور یہاں تک کہ ایران کے شہر مشہد میں عوام نے سعودی قونصلٹ سے اس کا جھنڈا اتار دیا جبکہ تہران میں حالات اس بھی زیادہ کشیدہ ہوئے.

یکم جنوری 2017 کی رات کو تہران میں سعودی سفارتخانے کے سامنے کچھ لوگ خودساختہ منصوبہ بندی کے تحت اور جتھے کی شکل میں سعودی سفارتخانے کے اندر داخل ہوئے اور سفارتخانے کی عمارت کو آگ لگادی.

اس واقعے کے ردعمل میں سعودی حکومت نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردئے اور اس کے بعد ایرانی سفارتکاروں کو 48 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا.

تعلقات منقطع ہونے کے ایک دن بعد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی ردعمل یہاں تک ختم نہیں ہوتا بلکہ ہماری جانب سے ایران کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات ختم کردئے گئے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان اب کوئی پرواز بھی نہیں ہوگی.

ایران سعودیہ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود سعودی حکام نے کہا کہ یہ صورتحال ایرانیوں کی حج آمد پر اثر انداز نہیں ہوگی مگر 2017 سے پہلے کوئی ایرانی شہری حج کے لئے سعودی عرب نہ جاسکا.

فریضہ حج کی ادائیگی میں ایران سعودیہ تعلقات تناؤ صرف ایک سال ہی رہا اور اگلے سال ایرانی زائرین حج کے لئے سعودی عرب آئے. رواں سال کے حج کے لئے بھی تقریبا 85 ہزار ایرانی زائر سعودی عرب میں موجود ہیں.

امسال سعودی حکام نے ایرانی زائرین کا غیرمعمولی انداز میں استقبال کیا. قطری اخبار الرایہ کے مطابق، سعودی حکومت نے پہلے ایرانی زائرین گروپ کا مدینہ میں پھولوں اور آب زمزم سے استقبال کیا.

دریں اثناء سعودی عرب کی قومی نیوز ایجنسی نے بھی مدینہ منورہ میں موجود ایرانی زائرین کی تصویری رپورٹس شائع کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت نے برابری کی بنیاد پر ایرانی حجاج کے لئے تمام سہولتیں فراہم کی ہیں.

سعودی نیوز ایجنسی نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی حکومت بغیر کسی امتیاز رویے کے ایرانی زائرین کو ہر ممکن سہولت دی ہے.

رپورٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ مدینہ منورہ کے محمد بن عبدالعزیز ہوائے اڈے پر پہنچے کے بعد ایرانی زائرین نے سعودی حکومت کی جانب سے مہیا کردہ سہولتوں پر سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا.

سعودی نیوز ایجنسی نے بعض ایرانی زائرین کے ساتھ گفتگو بھی کی جس میں ایرانی زائرین نے صحت اور سیکورٹی سے متعلق سہولتوں کا خیرمقدم کیا.

سعودی اخبار الریاض نے ایرانی شہر رباط کریم کے امام جمعہ علامہ حسن ترابی کا بھی انٹرویو کیا اور ان سے سعودی انتظامات سے متعلق سوالات کئے جس پر ایرانی امام جمعہ نے سعودی اقدامات کو سراہا ان پر اطمینان کا اظہار بھی کیا.

ایرانی زائرین سے متعلق سعودی رویے میں مثبت تبدیلی یہاں تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے ایرانی حج کوٹے کو 60 ہزار زائر سے بڑھا کر تقریبا 85 ہزار نفر کردیا. اس کے علاوہ ایرانی زائرین کے معاملات کو دیکھنے کے لئے سعودی عرب نے ایرانی دفترخارجہ کے بعض افسروں کو ملک میں آنے کی اجازت بھی دی.

سعودی حکام نے ایران کے تین اہم مطالبات کو بھی منظور کیا جن میں ایرانی زائرین کے معاملات کو دیکھنے کے لئے دفترخارجہ کے حکام کی سعودی عرب میں موجودگی، زائرین کی سلامتی اور ان عزت کو یقینی بنانا اور زائرین کو کسی تیسرے ملک کے بجائے براہ راست ایران سے سعودی عرب منتقل کرنا شامل تھا.

ارنا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی امور کے سنیئر ایرانی تجزیہ کار احمد بخشایشی کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کے رویے میں تبدیلی میں دو باتیں ہیں، یا سعودی عرب، ایران کے ساتھ تعلقات بحالی کی خواہش کا اظہار کررہا ہے یا تو وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ سعودی حکومت کا رویہ درست ہے مگر ایرانی حکمران ہمیں اپنے عوام میں منفی طور پر پیش کررہے ہیں.

ایرانی تجزیہ کار اپنے پہلی بات پر زیادہ اطمینان رکھتے ہیں کہ سعودی حکام ایران سے تعلقات بحالی چاہتے ہیں کیونکہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ اگر ایرانی عوام میں مثبت سوچ لانی ہو تو سب سے پہلے تعلقات کی بحالی ناگزیر ہے.

انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں بعض حلقے زائرین کے حج جانے کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ یہ مخالفت مذہبی شخصیات میں بھی دکھی جاسکتی ہے جو ادارہ حج کے خلاف بھی بولتے ہیں، سعودی عرب ان تمام حالات کو دیکھ رہا ہے لہذا وہ چاہتا ہے کہ رائے عامہ میں مثبت سوچ پیدا کرے.

احمد بخشایشی کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کو بھی چاہئے کہ حج کے موقع سے فائدہ اٹھا کر باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے لئے سعودی حکام سے بات کرے.

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات سے تہران اور ریاض کے درمیان دوبارہ تعلقات کے قیام کو ممکن بنایا جاسکتا ہے.

274**

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@