لندن، 7 مئی، ارنا - سنیئر برطانوی سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ 'جیک اسٹراو' نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ايران کو جوہری معاہدے سے متعلق عالمی حمايت حاصل ہے.

یہ بات جیک اسٹراو نے پیر کے روز ارنا نیوز ایجنسی کے نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا.
انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تجویز دی ہے کہ ایران جوہری معاہدے سے نکلنے سے متعلق کوئی نامعقول قدم نہ اٹھائے کیونکہ اب ایران 10 سال پہلے کا ایران نہیں بلکہ اسے عالمی برادری کی جانب سے پوری حمایت حاصل ہے.
جیک اسٹراو نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران سے متعلق سابق صدر براک اوباما نے جو اقدامات کئے انھیں ختم کرنے کے لئے پُرعزم ہیں. کوریائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی پیشرفت سے لگتا ہے کہ ٹرمپ مغرور ہے اور اس کا خیال ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف اپنائے گئے دھمکی آمیز رویے کے ذریعے ایران کو بھی قابو پایا جاسکتا ہے جبکہ ایران اور شمالی کوریا کے مسائل میں کوئی مشابہت نہیں ہے.
سابق برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدہ ایک اہم عالمی سمجھوتہ جس تک پہنچنے کے لئے 12 سال طویل مذاکرات ہوئے اور اب یہ معاہدہ عالم امن و سلامتی کے لئے مشعل راہ ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ جوہری معاہدے کی توثیق نہ کرے تو اس کا یہ فیصلہ غیرذمہ دارانہ ہوگا.
سنیئر برطانوی سیاستدان نے کہا کہ تمام شواہد اور اطلاعات کے مطابق ایران اب تک اپنے وعدوں پر من و عن عمل کیا ہے جبکہ مغربی فریق اپنے بعض وعدے بشمول تجاری اور بینکاری سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹوں کے خاتمے پر مخلص نہیں تھا جس کی وجہ سے برطانوی کمپنیوں اور تاجر برادری ناراض ہیں.
انہوں نے کہا کہ جوہری معاہدہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا ایک باضابطہ سمجھوتہ جس کی توثیق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کرچکی ہے اور یہ معاہدہ اب ایک بین الاقوامی قانون کے زمرے میں آتا ہے مگر اب امریکہ ہی واحد ملک ہے جو اس معاہدے سے نکلنا چاہتا ہے.


برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کی ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی سے دنیا میں امن و امان کی صورتحال پر برے اثرات مرتب ہوں گے.

ایران کے جوہری معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا اس کے لئے دو جوابات ممکن ہیں سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ جس میں سب کا مفاد ہوں اور بغیر کسی سوال کے ہونا چاہئے کہ یہ معاہدے جاری رکھنا چاہیے اور دنیا کی چھے طاقتوں کو اس معاہدے کا احترام کرنا چاہیے.

جیک اسٹراؤ نے مزید کہا کہ ایران جوہری معاہدہ دنیا میں مہلک ھتھیاروں کی روک تھام اور تخفیف اسلحہ معاہدے کو یقینی بنانے کے لئے امید کی کرن ہے.

انہوں نے کہا کہ عالمی جوہری معاہد سے ایران کی اقتصادی ترقی کے لئے اچھے مواقع فراہم ہوں گے.

ڈونلڈ برطانوی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ سب سے زیادہ اہم امکان یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے تیل اور گیس سے متعلقہ معاملات کے سلسلے میں پابندیوں کی حدود کو تجدید نہیں کریں گے بلکہ وہ معاہدے کو مسترد کریں گے جو کہ نہایت سنگین بات ہوگی.

انہوں نے کہا سب سے پہلے ان کا مقصد ایران کے طاقتور ترقی یافتہ ایٹمی ہتھیار کے خطرے کو کم کرنا ہے حالانکہ آئی اے ای اے اس معاہدے کی جانچ پڑتال ایران میں موجود 400 انسپکٹرز کے ذریعے اندرونی معائنہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس معاہدے سے صدر ٹرمپ کی دستبرداری کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا اور میرے خیال میں یہ نہایت تباہ کن اور بین الاقوامی امن کو متاثر کرے گا.

دوسرے نقطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا مجھے امید ہے کہ اگر صدر ٹرمپ معاہدے سے نکل جائیں تو باقی 5 عالمی طاقتیں اور ایران کو چین کی سانس لینے کا موقع ملے گا اور وہ اس بات پر غور کرینگے کہ کیا امریکہ کے بغیر عالمی جوہری معاہدے کو آگے بڑھا سکتے ہیں کہ نہیں. دوسری جانب یورپی فریق بھی قانونی طور پر امریکہ کی جانب سے متوقع پابندیوں کےاثرات سے بچنے کے لیے اقدامات کرے گا.

ٹرمپ کے جانب سے ایران جوہری معاہدے سے انحراف اور ممکنہ پابندیوں کی واپسی پر عالمی ردعمل کے جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا اول میں مکمل طور پر صدر ٹرمپ کے متعلق نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ یورپی قوت، چین، روس اور اسلامی جمہوریہ ایران کے رد عمل پر بھی منحصر ہے لیکن یقینی طور پر آئل مارکیٹ میں رکاوٹ کھڑی ہوگی اور تیل کی عالمی قیمت بڑھنے کا امکان ہے جبکہ گزشتہ ہفتے امریکہ میں موجودگی کے دوران وال اسٹریٹ جرنل میں ایک مضمون پڑھا کہ آئل مارکیٹ سابقہ قیمت پر پوزیشن لے رہی ہے.

اس کے علاوہ اس طرح کے اقدامات دنیا کو غیر محفوظ جگہ بنا رہی ہے اور بین الاقوامی برادری مصیبت کا سامنا کرے گی

میں امید کرتا ہوں صدر ٹرمپ معاہدے سے نکلنے سے قبل ایک نظر غیر جانبدارانہ نظر دوڑائیں.

سابق برطانوی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا صدر ٹرمپ اوبامہ کی مثبت پالیسیوں کو کمزور کرنے اور تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے دوسرا یہ کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان مذاکرات کی کامیابی صرف شمالی کوریا پر بڑھائے جانے والے دھمکی اور خطرات کا نتیجہ تھا، لہذا وہ میز پر آئے. وہ اسی طرح ایران کو دھمکی دیتے ہوئے مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں. لیکن ایران میز پر ہی رہا ہے ایران نے اس معاہدے پر ۱۳ سال بات چیت کی ہے، ایران انتخابات پر مشتمل ، منتخب صدر اور پارلیمنٹ کے ساتھ ایک درمیانی آمدنی کا متوسط ملک ہے اور ایران ہرگز شمالی کوریا نہیں ہے .

انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک امریکہ کے اس معاہدے پر کاربند رہنے کی متعلق فکر مند نہیں حالانکہ سب یہی چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ جوہری معاہدے میں رہے لیکن دیگر جوہری ممالک میں نہ صرف جرمنی کے ایران کے ساتھ بہترین تجارتی اور تاریخی تعلقات ہے بلکہ فرانس اور برطانیہ بھی یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ جے سی سی او اے میں رہنا چاہتے ہیں جبکہ برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اور وزیر اعظم تھیسا نے کہا ہے برطانیہ کی حکومت معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گی.

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹراو نے انٹرویو کے اختتام میں اس سوال پر کہ اگر امریکہ جوہری معاہدے سے نکلے تو کیا ایران یورنیم کی افزودگی دوبارہ سے شروع کردیگا کے جواب میں کہا اس وقت ایران بہترین عالمی تعلقات کا مظاہرہ اور برتاو کر رہا ہے جس کہ صلے میں ایران کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا رہا ہے ، صدر ٹرمپ نے ہمیشہ نہیں رہنا تو صدر روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف باقی ممالک کے ساتھ تعلقات کیونکر خراب کرینگے ؟ وہ یقینا ایک بہترین پائیدار حل نکالیں گے.

1*274**

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@