ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ انہوں نے خطے کے ممالک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ درحقیقت وہی راستہ ہے جسے ایرانی عوام نے انقلاب کی صورت میں چنا اور ایک آزاد، خوشحال اور ترقی یافتہ جمہوری ملک کے حصول کے لیے اختیار کیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ امریکہ ہی ہے جس نے گزشتہ چالیس سال سے پابندیوں، دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے ایرانی قوم کی ترقی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ اقتصادی مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے اور اس نے ایرانی عوام پر جو استکباری پالیسیاں مسلط کر رکھی ہیں اور جس فرمانبردار نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو ایرانی عوام کے وقار کے منافی ہے۔
عراقچی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر زور دے رہے ہیں، کہا کہ امریکی صدر نے خطے میں اسرائیل کے تمام جرائم کو نظر انداز کیا اور ایران کو ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے کے درپے ہیں۔ یہ خالص دھوکہ ہے۔ کس حکومت نے غزہ میں 60 ہزار افراد کو قتل کیا؟ غزہ میں اتنی تباہی کس نے کی؟ لبنان، شام اور یمن سمیت فلسطین کے ارد گرد کے علاقے پر کون سی حکومت حملہ کرتی ہے؟ صیہونی حکومت نے حالیہ مہینوں میں شام پر جس قدر غاصبانہ قبضہ کیا ہے وہ غزہ کے پورے علاقے سے زیادہ ہے۔ صیہونی حکومت نے غزہ میں فلسطینی قوم کی اقتصادی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔ ان تمام مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی وہ ایران کو خطے کے لیے ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اصل خطرے کو بھلا دیا جائے لیکن وہ اس راہ میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب اور قطر کے دوران زیر بحث موضوعات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم علاقائی ممالک بشمول سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک بشمول یورپی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے دوستوں کو ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بعد ہونے والے عمل سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہم اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ مذاکرات کے اس راونڈ اور کسی بھی ممکنہ معاہدے کے حوالے سے ایک علاقائی مفاہمت ہو جائے، تاکہ ہم علاقائی استحکام اور سلامتی میں اضافہ کا مشاہدہ کر سکیں اور یقیناً ایران اور خطے کے ممالک کے درمیان غیر ملکی مداخلت کے بغیر علاقائی امنیت کو بڑھایا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہوگی۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے دورہ ایران کے بارے میں میڈیا کی قیاس آرائیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محترم روسی صدر کا دورہ دونوں ممالک کے طویل المدتی منصوبے میں شامل ہے اور ہم اس دورے کو ترتیب دینے کے لیے روسی فریق سے مشاورت کر رہے ہیں۔
ایران اور یورپ کے درمیان مذاکرات کے عمل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عراقچی نے کہا کہ جب کہ ہم امریکہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم یورپ کے ساتھ بات چیت کے لیے بھی تیار ہیں۔ بدقسمتی سے خود یورپی ہی ہیں جو اپنی پالیسیوں کے باعث ان مذاکرات میں کسی حد تک الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ ہم ایسی صورتحال نہیں چاہتے۔ ایران اور یورپ کے درمیان نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات کا اگلا دور جمعہ 16 مئی کو استنبول میں منعقد ہوگا۔
آپ کا تبصرہ