ارنا کے سی ای، ایرانی وزارت خارجہ کے سابق ترجمان اور آستانہ مذاکرات میں ایران کے چیف مذاکرات کار، حسین جابری انصاری نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے دوسرے دور کے حوالے سے انکی کیا رائے ہے، کہا کہ عمان کی میزبانی میں ہونے والے ایران - امریکہ بالواسطہ مذاکرات جس کا پہلا راونڈ عمان اور دوسرا راونڈ ہفتے کی دوپہر (19 اپریل) کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں منعقد ہوا، جس کی میزبانی سلطنت عمان نے کی، مشکل اور پیچیدہ ہیں۔ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز سے قبل ایران اور امریکہ کے درمیان مسائل اور تعلقات کی تاریخ اور مذاکرات اور جوہری مسئلے سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے مسقط مذاکرات کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ مذاکرات شروع ہونے سے قبل یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ اگر مسقط مذاکرات سفارت کاری کے لیے ایک چھوٹی سی بھی راہ کھولنے میں کارآمد رہے تو اس عمل کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسقط میں ہونے والی بات چیت عمان کی ثالثی سے اٹلی کے دارالحکومت روم میں جاری رہی، جو اس بات کی تصدیق ہے کہ مذاکرات نسبتاً کامیابی کے ساتھ شروع ہوئے، یعنی دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت جاری رکھنے کے لیے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ مخصوصا ایسے پیچیدہ اور حساس مسئلے پر، جس میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان گزشتہ چند دہائیوں میں اختلافات کی تاریخ ہے، سفارت کاری کا یہ جھروکا مذاکرات میں تعطل کو روکنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔
وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ روم میں4 گھنٹے کی بالواسطہ بات چیت کے فورا بعد ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی جانب سے کیے گئے امید افزا تبصرے، مذاکرات آگے بڑھنے اور اس بات کا عندیہ ہیں کہ مسقط میں کھولا گیا چھوٹا راستہ روم میں مکمل ہو گیا ہے۔
سینئر سفارت کار نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں میں دونوں ممالک کے درمیان مجموعی تعلقات تضادات، محاذ آرائیوں اور ایک رنجش سے بھرپور رہے ہیں، لیکن بسا اوقات کم ترین تعاون یا افہام و تفہیم سے مفاہمت کے دروازے کھل گئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ جے سی پی او اے کے تلخ تجربے اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے پیش نظر، جب نئی امریکی انتظامیہ نے عملی طور پر سب درہم برہم کردیا تو اس مسئلے نے فریقین کے درمیان عدم اعتماد کو ہوا دی، خلیج مزید گہری ہو گئی اور مذاکرات کو ملتوی کر دیا گیا۔ مگر عمان کی ثالثی سے اس وقت جو بات چیت جاری ہے وہ ایک نیا امتحان اور تجربہ ہے۔
آپ کا تبصرہ