ایران کے وزیر خارجہ کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ جب میں نے جوہری پالیسی پر کارنیگی بین الاقوامی کانفرنس میں تقریر کرنے کی حامی بھری تھی، ایران - امریکہ مذاکرات کے اگلے دور کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی تھی، جو بدھ کو ماہرین کی سطح پر اور ہفتے کے روز اعلیٰ سطح پر ہوں گے۔ جیسا کہ میں نے اپنی تقریر کے مسودے میں واضح کہا ہے کہ ہم عموم کے سامنے مذاکرات نہیں چاہتے اور کچھ مخصوصی گروپ اپنے مفادات کے لیے مذاکرات کاروں کو بدنام اور امریکی حکومت کو زیادہ سے زیادہ مطالبات کرنے کی ترغیب دے کر سفارتی عمل کو خراب کرنے اور پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عراقچی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ میں صحافیوں کے مشکل سوالات کے جواب دینے یا عام شہریوں کے خدشات کا جواب دینے کا عادی ہوں لیکن تقریر کو کھلے سوال و جواب کے سیشن میں تبدیل کرنا یا تو اسے عوامی بحث میں بدل دیتا ہے، جسے میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، یا یہ ان سامعین کے لیے بے چینی کا باعث بنتا ہے جو ممکنہ طور پر مذاکرات کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے مدعوین اس حساس موضوع کونہ تو سمجھ پائے اور نہ ہی اس پر توجہ دے سکے۔
وزیر خارجہ کی تقریر کے متن میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اس اجتماع کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کے مستقبل پر تبادلہ خیال کرنا ہے، مجھے یقین ہے کہ ذمہ دار پالیسی ساز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بات چیت سے ہٹ کر تنازعات کی طرف بڑھنے سے عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو اس کے تحفظ میں مدد دینے کے بجائے نقصان پہنچے گا۔ میرا مقصد ایران کا نقطہ نظر اور ان اہداف کی وضاحت ہے جو میرا ملک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 1960 کی دہائی میں NPT کے بانی اراکین میں سے ایک کے طور پر، ایران ہمیشہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی اور جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرنے کے اصولوں پر کاربند رہا ہے۔ ہم روئے زمین پر وہ واحد ملک ہیں جس نے اخلاقی اور مذہبی بنیادوں پر ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت کا باضابطہ اعلان کیا ہے اور اس مخالفت کا اظہار رہبر انقلاب اسلامی ایران کے جاری کردہ فتویٰ میں کیا گیا ہے کہ ایسے ہتھیار حرام ہیں۔ ایران ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں سے پاک زون (اور حال ہی میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک زون) کے قیام کا بھی بھرپور حامی ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر آنکھیں بند کرکے اور NPT میں شامل ہونے یا IAEA کی نگرانی کو قبول کرنے سے انکار کو نظر انداز کرکے، مغربی ممالک نے اپنے دوہرے معیار سے عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کی پالیسی کو نقصان پہنچایا ہے۔
متن میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی سے، ہمارے پرامن جوہری پروگرام کی غلط فہمیوں اور سیاسی طور پر محرک بیانیوں کی وجہ سے غلط تفسیر کی گئی ہے۔ اس طرح کے بیانیے غلط پالیسیوں کی تشکیل اور بامعنی سفارت کاری کے مواقع کو ضائع کرنے کا باعث بنے ہیں۔
اس متن کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ایران کے متدین ماضی اوراس کی ثقافتی اور سیاسی شناخت جو ہماری قدیم تاریخ نے تخلیق کی ہے، کا احترام انتہائی ضروری ہے۔ ایران کی قابل فخر قوم کے برسوں سے جاری خلاف دھمکیوں اور دباؤ کا استعمال بے اثراور مفاہمت کا راستہ بند کر دیتا ہے ۔ باہمی احترام اور مساوات پر مبنی تعمیری بات چیت اعتماد پیدا کرنے اورمعاملات کو آگے بڑھانے میں موثر ثابت ہوگی۔
آپ کا تبصرہ