انہوں نے یدیعوت آحارانوت اخبار میں شایع ہونے والے اپنے مضمون میں جنگ غزہ اور صیہونی حکومت کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل کوئی بھی طریقہ کیوں نہ اپنائے، اسے ہر حال میں نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔
مائیکل میلسٹائن نے لکھا ہے کہ جن حالات میں صیہونی حکومت نے خود کو پھنسایا ہے اس کی وجہ سے اس کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگئی ہے۔
اس مضمون میں درج ہے کہ ایک جانب جنگ جاری رہنے کے نتیجے میں کوئی قیدی رہا نہیں ہوگا تو دوسری جانب غزہ پر مکمل قبضے کی صیہونی فوج کی صلاحیت پر سوالیہ نشان اٹھ چکا ہے۔
مائیکل میلسٹین نے لکھا ہے کہ حماس نے بھی باضابطہ طور پر اعلان کردیا ہے کہ جنگ کے خاتمے اور غزہ پٹی سے صیہونی فوج کے انخلا کے بغیر کوئی بھی معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
مضمون میں آیا ہے کہ صیہونی سیاسی قیادت نے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور بزالل اسموترچ جیسے صیہونی وزیر، حماس کو تباہ، غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کو زبردستی کوچ کرانے کے ٹرمپ کے پلان پر زور دے رہے ہیں حالانکہ صیہونیوں کی اکثریت اس کے خلاف ہے کیونکہ غزہ پٹی پر قبضے کا مطلب قیدیوں کی موت ہے۔
"موشے دایان" انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ مائیکل میلسٹائن نے کہا ہے کہ صیہونی فوج نے غزہ کے 40 فیصد علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے لیکن حالات کو اپنے قابو میں کرنا الگ مسئلہ ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت کو غزہ میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک گھنی آبادیوں میں داخل ہونا ہے اور اس صورت میں حماس اپنے طاقت ور جنگی حربوں کے ذریعے اسرائیل کو شکست دے دے گا اور دوسرا چیلنج غزہ کی مکمل آبادی کو اپنے قابو میں کرنا ہے جس کا مطلب مارشل لا کا نفاذ اور اسرائیل کے دشمن 20 لاکھ لوگوں کو خدمات دینا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ایسی صورت میں بھی چھاپہ مار جنگ اور فوجی کارروائیاں زور پکڑ لیں گی اور صیہونی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مائیکل میلسٹائن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نتن یاہو کے فیصلوں کے نتیجے میں غزہ پٹی صیہونی فوجی اور سیاسی قیادت کے لیے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ نہ اسے اگل پا رہی ہے نہ نگل پا رہی ہے۔
میلسٹائن نے لکھا ہے کہ ایک صورت ہے جس میں نقصان سب سے کم ہے اور وہ ہے جنگ غزہ کا خاتمہ اور اسرائیلی فوجیوں کی پسپائی۔
آپ کا تبصرہ