فلسطینی ڈاکٹر عصام ابو عجوہ نے ایک بیان میں قابضین کی جانب سے قید کے دوران فلسطینی قیدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم اور اذیت کے ہولناک حالات کے بارے میں بتایا۔
ڈاکٹر ابو عجوہ نے بتایا کہ صہیونی جیل کا عملہ ہمیں چھوٹے، نوکیلے پتھروں سے ڈھکی زمین پر سونے پر مجبور کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا تھا اور پھر پنکھے اور ایئر کنڈیشنر کو آن کر دیتے تھے۔
صیہونی تفتیش کار اور جیل کا عملہ قیدیوں کو مزید اذیت دینے اور سونے سے روکنے کے لیے 24 گھنٹے بلند آواز میں گانے بجاتے تھے۔
فلسطینی ڈاکٹر نے بتایا کہ تفتیشی اہلکار انہیں نوک دار سطح پر 2 سے 3 گھنٹے کھڑا رہنے پر مجبور کرتے تھے اور اس کے بعد زمین پر پھینک کر پر پانی ڈالا جاتا تھا جس کے بعد 3،4 جیل ملازمین انکو شدید تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
ڈاکٹر ابو عجوہ نے انکشاف کیا کہ قیدیوں کو باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت لینا پڑتی تھی، اور مریضوں کو نہانے کی اجازت نہیں تھی۔ قیدیوں میں جلد کے امراض عام تھے کیونکہ 6 ماہ تک نہ کپڑے بدلے جاتے تھے نہ کپڑے دھو سکتے تھے۔
انکا کہنا تھا کہ شدید تشدد اور بیماری کی صورت میں بھی دوائیاں نہیں دی جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ قیدی دن میں صرف ایک بار پائپ سے گرم پانی پی سکتے تھے۔
وحشی صہیونیوں نے ہمارے جوتے بھی چھین لیے تھے اور ہمیں 37 ڈگری کے درجہ حرارت میں 2 سے 3 گھنٹے تک سڑک پر ننگے پاؤں کھڑا رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
فلسطینی ڈاکٹر نے بتایا کہ کھانا صرف دہی اور تھوڑے سے چاول پر مشتمل ہوتا تھا۔
انکا کہنا تھا کہ قابضین نے نہ الزامات سے آگاہ کیا اور نہ ہی 7 ماہ کی اسیری کے دوران کسی وکیل کا انتظام کیا۔
آپ کا تبصرہ